رسائی کے لنکس

کیا محمد علی صوفی تھے؟


نقش بندی سلسلے کے فیس بک پیج کے ایک چاہنے والے نے علی کے شان میں تحریر کیا کہ وہ ’’ایک صوفی مسلمان بھائی‘‘ ہیں، جب کہ دوسرے نےبظاہر وڈیو کی رسومات دیکھ کر اور مغلوب ہو کر اُنھیں ’’محمد علی نقش بندی‘‘ کا لقب عطا کیا

ایسے میں جب دنیا محمد علی کی موت پر افسردہ ہے، صوفی مسلک کی روایات کے ماننے والے کچھ امریکی عظیم باکسر کے ساتھ روحانی رشتے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ لیکن، اسکالرز کی رائے میں اِس دعوےمیں حقیقت کا روپ کم اور لفاظی کا اذکار زیادہ معلوم ہوتا ہے۔

امید صفی ڈیوک یونیورسٹی میں اسلامی مطالعے کے مرکز کے سربراہ ہیں۔ وہ سنہ 2004میں علی سے ملے تھے اور کنٹکی کے شہر لوئزویل میں محمد علی مرکز میں اُن کے ساتھ دِن گزارا تھا۔ بقول اُن کے، ’’سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ علی کسی طور پر اسلام کی صوفیانہ روایت سے کوئی رغبت یا دلچسپی رکھتے ہوں‘‘۔

بقول اُن کے، ’’لیکن۔ کیا وہ ایک صوفی تھے؟ جو بات ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں وہ یہ کہ وہ حضرت عنایت خان کے ایک محتاط شاگرد تھے، جو آفاقی صوفیانہ تعلیمات کے سرپرست تھے؛ اور یہ کہ وہ مختلف مسلمان صوفی اساتذہ سے ملا کرتے تھے‘‘۔

اِس ضمن میں، تین جون کو علی کی وفات کے بعد، سماجی میڈیا میں اس قسم کی رپورٹیں گردش کر رہی ہیں۔

چار جون کو ضیا عنایت خان، جو کہ صوفی سلسلے کی بنیاد رکھنے والے عنایت خان کے پوتے اور اُن کے سلسلے کے موجودہ سربراہ ہیں، اُنھوں نے فیس بک پر ایک مضمون شایع کیا ہے، جس میں ’’غیرمشہور اور دلچسپ حقائق‘‘ بیان کیے گئے ہیں، جس میں یہ کہا گیا ہے کہ علی نے جانی کیش کو ترغیب دی تھی کہ وہ ’سچ‘ سے پردہ اٹھائیں۔ دراصل یہ حضرت عنایت خان کی ایک نظم ہے، جنھیں بیسویں صدی میں امریکہ میں صوفی نظریات کی داغ بیل رکھنے والے کا شہرہ حاصل ہے۔

سلسلہٴ نقش بندیہ

اُسی روز فیس بک کا ایک پیج سلسلہٴ نقش بندیہ کے مرحوم استاد کو وقف کیا گیا جو امریکہ کا سب سے بڑا صوفی گروپ ہے۔ اس میں شیخ کے ساتھ علی کی تصویر بھی شائع کی گئی، اس دعوے کے ساتھ کہ مرحوم باکسر نے ’’نقش بندی روحانی سلسلہ قبول کر لیا تھا‘‘۔

پانچ جون کو سلسلہٴ نقش بندیہ کے موجودہ امریکی روحانی پیشوا سے متعلق سرکاری فیس بک پیج پر ایک وڈیو شائع ہوئی جس میں سنہ 2001 میں علی مشی گن میں شیخ کے گھر پر موجود ہیں اور ایک رسمیہ تقریب میں شریک ہیں۔

اس کا جو بھی مقصد ہو، شائقین اِن پوسٹس کو دیکھ کر جوش ِ جذبات میں بہک جاتے ہیں۔

ایک پرستار نے ضیا عنایت خان کے پیج پر لکھا کہ ’’شکریہ کہ آپ نے ہمیں محمد علی کی عنایت خان کی تعلیمات سے تعلق کے بارے میں آگاہ کیا‘‘۔

نقش بندی سلسلے کے فیس بک پیج کے ایک چاہنے والے نے علی کے شان میں تحریر کیا کہ وہ ’’ایک صوفی مسلمان بھائی‘‘ ہیں، جب کہ دوسرے نےبظاہر وڈیو کی رسومات دیکھ کر اور مغلوب ہو کر اُنھیں ’’محمد علی نقش بندی‘‘ کا لقب عطا کیا۔

علی کے صوفی ہونے کے بارے میں یہ دعویٰ سماجی میڈیا تک محدود نہیں رہا۔

متعدد اخباری رپورٹوں میں بھی اِسی موضوع کو اچھالا گیا ہے، جن میں علی کی بیٹی، حنا یاسمین علی کا ایک انٹرویو سامنے آیا ہے۔ سنہ 2004 میں اُنھوں نے یہ انٹرویو مذہبی ویب سائٹ ’بلیف نیٹ‘ کو دیا تھا، جس میں وہ کہتی ہیں کہ علی ’’اب مذہب سے زیادہ روحانیت کے قائل ہیں‘‘۔ اُنھوں نے دِن میں پانچ بار نماز پڑھنا چھوڑ دی ہے اور عنایت خان کی تعلیمات کا مجموعہ اپنے پاس رکھتے ہیں، جسے وہ ’’دنیا کی بہترین کتابیں‘‘ خیال کرتے ہیں۔

اس نسبت کا کوئی ثبوت موجود نہیں

جب کہ اس انٹرویو میں علی کی روحانیت میں گہری دلچسپی بتائی گئی ہے، علما کا کہنا ہے کہ میڈیا رپورٹیں کہ ہو سکتا ہے علی سنی اسلام کی جگہ صوفی ازم کی جانب راغب ہوگئے ہوں، درست نہیں۔

ڈیوک یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے صفی کے بقول، ’’یہ صوفی ازم اور سنی اسلام کے درمیان تعلق کی غلط تشریح ہے۔ صوفی ازم کوئی علیحدہ مذہبی روایت کا نام نہیں۔ یہ محض اسلام کی صوفیانہ طرزِ عمل کا نام ہے‘‘۔

سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت موجود نہیں کہ علی باضابطہ طور پر صوفی طریقے سے منسلک تھے۔ یہ بات کبیر ہیل منکسی نے کہی ہے جو لوئر ویل میں قائم میولوی صوفی سلسلے اور تیرہویں صدی کے صوفی شاعر رومی کی شاعری پر کئی کتابوں کے مترجم ہیں۔

ہیل منسکی نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’’مجھے شک ہے کہ محمد علی کسی شیخ کے مرید تھے۔ لیکن، اُن کا دل صوفی ازم کی جانب مائل تھا‘‘۔

خود علی نے کبھی اپنے آپ کو صوفی سلسلے کا رکن ظاہر نہیں کیا۔ میلکم ایکس نے 1960 کے ابتدائی عشرے کے دوران ’نیشن آف اسلام‘ میں لوگوں کو بھرتی کیا؛ اُنھوں نے اس گروپ کے نظریات شدت پسندی پر رکھے، جس کے بعد، سنہ 1975 میں اس کے بانی، عالیجاہ محمد کی ہلاکت کے بعد، قدامت پسند سنی مسلک اختیار کیا۔

میں نے اپنا اعتقاد بدل دیا ہے

عالیجاہ محمد کے بیٹے اور جانشین، ویلس دین محمد نے’’قرآن کے اصل مفہوم کی تعلیم شروع کی ہے‘‘۔ یہ بات علی نے سنہ 1990 میں شائع ہونے والی سوانح حیات:

Ali: His Life and Times میں کہی ہے۔ ’’لیکن، میں نے اپنا اعتقاد بدل دیا ہے، اور میں اب اصل اسلام میں یقین رکھتا ہوں‘‘۔

سوانح حیات لکھنے والے، تھامس ہوزر نے علی کے لیے کہا ہے کہ وہ ’’انتہائی مذہبی اور روحانی‘‘ شخص تھے۔ لیکن، اپنے سوانح میں وہ علی کی جانب سے صوفی ازم میں شمولیت یا صوفی اساتذہ کے ساتھ ملاقاتوں کا کوئی ذکر اذکار نہیں کرتے۔

XS
SM
MD
LG