رسائی کے لنکس

میازاکی: سو ڈالر کا ایک آم، کچھ تو خاص ہے!


میازاکی آم، فائل فوٹو
میازاکی آم، فائل فوٹو

مرزا غالب نے آموں کے بارے میں کہا تھا کہ میٹھے ہوں اور بہت ہوں۔ انہوں نے یہ نہیں کہا تھا کہ سستے بھی ہوں۔ غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ انہیں آموں کے ٹوکرے تحفے میں ملتے تھے ۔

گزشتہ دنوں بھارتی ریاست مغربی بنگال میں آموں کی نمائش میں رکھے جانے والے ایک آم کی قیمت نے مجھے چونکا دیا۔ اس کے دام دو لاکھ 75 ہزار کلو لگائے گئے تھے۔اس تین روزہ نمائش میں دنیا بھر کے آموں کی تقربیاً پونے تین سو اقسام رکھی گئیں تھیں۔ لیکن توجہ کا مرکز دو لاکھ 75 ہزار روپے والا آم رہا۔ جسے اگر خریدا نہیں تو کم از کم دیکھنے کی سعادت تو حاصل کی جا سکتی تھی۔

دنیا کے اس مہنگے ترین آم کا نام ’میازاکی‘ ہے۔ اس کا تعلق جاپان سے ہے۔اسے آموں میں وہی مقام حاصل ہے جو ہیروں میں کوہ نور کو ہے۔

کہا جاتا ہے کہ دنیا میں آموں کی سب سے زیادہ اقسام جنوبی ایشیا میں پائی جاتی ہیں۔ ایک سے ایک بڑھ کر میٹھا، رسیلا اور خوش ذائقہ ہوتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے آم دنیا بھر کی مارکیٹوں میں نظر آتے ہیں اور مہنگے داموں بکتے ہیں۔یہاں امریکہ میں ان کا کارٹن 40 سے 45 ڈالر میں ملتا ہے جس میں چھ آم ہوتے ہیں۔ جب کہ میکسیکو کے 12 سے 16 آموں کا کارٹن 12 سے 14 ڈالر کے دام پاتا ہے۔

امریکی مارکیٹ میں ملے والے آم، فائل فوٹو
امریکی مارکیٹ میں ملے والے آم، فائل فوٹو

امریکی مارکیٹ میں کبھی کبھار میازاکی بھی آتا ہے ۔ مگر یہ آم ، عام لوگوں کے لیے نہیں ہوتا کیونکہ ایک آم کی قمیت 100 ڈالر کے لگ بھگ ہوتی ہے۔

آم کو پھلوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔ اگر آم پھلوں کا بادشاہ ہے تو میازاکی کو آموں کا شہنشاہ کہا جا سکتا ہے۔

میازاکی کی ظاہری اور باطنی خوبیاں ہی اسے بیش قیمت بناتی ہیں۔ اس کی پرورش بھی کچھ اسی طرح کی جاتی ہے،جیسے اتالیق شہزادوں کو تخت و تاج کے لیے تیار کرتے تھے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ میازاکی کا وطن جاپان نہیں ہے بلکہ آم کی یہ ورائٹی پہلے پہل 1940 میں امریکی ریاست فلوریڈا میں تیار گئی تھی۔ اسے آپ میازاکی کا جد امجد بھی کہہ سکتے ہیں۔ بڑے سائز اور سرخ و سبز رنگت کا یہ آم اب بھی امریکی مارکیٹ میں ملتا ہے اور بے قدری کا یہ عالم ہے کہ بمشکل ایک ڈیڑھ ڈالر فی آم قیمت پاتا ہے۔

فلوریڈا میں پیدا ہونے والا آم، فائل فوٹو
فلوریڈا میں پیدا ہونے والا آم، فائل فوٹو

فلوریڈا کے قلمی آم کی یہ قسم جسے ارون کہا جاتا ہے، یہاں سے دنیا کے کئی دوسرے ملکوں میں پہنچی اور وہاں اس کی کاشت شروع ہوئی۔ ان ملکوں میں جاپان بھی شامل ہے۔ یہ ذکر ہے 1980 کے عشرے کا جب پہلے پہل فلوریڈا کے آم نے ابھرتے سورج کی اس سرزمین پر اپنا قدم رکھا۔

جاپان کے جنوب میں میازاکی نام کا ایک شہر ہے۔ امریکہ سے لائے گئے اس آم اسی علاقے میں بویا گیا اور اس شہر کی مناسبت سے اسے میازاکی کا نام دیا گیا۔ سات سمندر پار سے لائے گئے اس آم کو یہاں کی آب وہوا اور مٹی آم کو بہت راس آئی اور پھر سونے پر سہاگے کا کام جاپانی کسانوں کی محنت اور جانفشانی نے کیا۔

گرین ہاؤس میں میازاکی کے پودوں کی دیکھ بھال پر بہت توجہ دی جاتی ہے۔ فائل فوٹو
گرین ہاؤس میں میازاکی کے پودوں کی دیکھ بھال پر بہت توجہ دی جاتی ہے۔ فائل فوٹو

میازاکی کا موسم نسبتاً گرم ہے۔ پانی کی فراوانی ہے۔ سورج خوب روشن ہوتا ہے اور دیر تک چمکتا ہے۔ مٹی زرخیز ہے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جنہوں نے فلوریڈا کے آم کو میازاکی بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔

آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ جاپان میں میازاکی کا پودا کھلی فضا میں نہیں اگایا جاتا بلکہ اسے بڑے گملوں میں گرین ہاوسز میں پروان چڑھایا جاتا ہے۔ گرین ہاؤسز میں اسے وہ تمام ماحول فراہم کیا جاتا ہے جو ایک اعلی معیار کا آم حاصل کرنے کے لیے درکار ہوتا ہے۔

جب پودوں پر ننھے آم لگنا شروع ہوتے ہیں تو جاپانی کسان ان میں سے لگ بھگ 80 فی صد آم توڑ کر ضائع کر دیتے ہیں تاکہ باقی ماندہ آموں کو تمام غذائی اجزا وافر مقدار میں ملیں اور کسی چیز کی کمی نہ رہ جائے۔

جب پھل کا سائز بڑا ہونے لگتا ہے تو اس پر جالی کی تھیلی چڑھا کر ایک تار سے گرین ہاؤس کی چھت سے باندھ دیا جاتا ہے تاکہ پودے کی شاخ پر آم کا بوجھ نہ پڑے۔آم کو زیادہ سے زیادہ سورج کی روشنی دینے کے لیے مختلف جگہوں پر اس طرح آئینے نصب کیے جاتے ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ وقت تک ہر جانب سے دھوپ میں رہیں ۔ سورج کی کرنیں ہی میازاکی کو چمکدار سرخ رنگت دیتی ہیں۔اور یاں یاد رہے کہ جاپانی زبان میں میازاکی کا مطلب ہے سورج کا انڈا۔

ہمارے ہاں عام طور پر آموں کو درختوں سے کچا توڑ کر پال میں ڈال دیا جاتا ہے جس سے چند دنوں میں وہ پک کر تیار ہو جاتے ہے۔ لیکن جاپانی کسان شاخ پر ہی میازاکی کے پکنے کا انتظار کرتے ہیں، حتیٰ کہ وہ خود ٹوٹ کر شاخ سے الگ ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد آم کو درجہ بندی کے لیے تھیلی سے نکال لیا جاتا ہے۔

مارکیٹ میں صرف وہی آم بھیجا جاتا ہے جو اپنی رنگت اور ساخت کے اعتبار سے بہترین حالت میں ہو۔ اس کا وزن کم ازکم 350 گرام ہو۔ 900 گرام وزن کے بھی میازاکی بھی دیکھے گئے ہیں۔ اس میں میٹھاس کا تناسب 15 فی صد سے زیادہ ہو۔ وہ انڈے کی طرح بیضوی اور کم ازکم مقررہ سائز کے میعار پر پورا اترتا ہو۔

میازاکی کو خوبصورت ڈبوں میں پیک کیا جاتا ہے۔ فائل فوٹو
میازاکی کو خوبصورت ڈبوں میں پیک کیا جاتا ہے۔ فائل فوٹو

میازاکی کی کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ مارکیٹ میں بھیجنے کے لیے اسے ایک مخصوص فوم جیسے سانچے میں رکھا جاتا ہے تاکہ وہ محفوظ رہے۔پھر اسے خوبصورت ڈبوں میں پیک کیا جاتا ہے جس میں آم کے بارے میں معلومات اور اسے کاٹنے اور کھانے کے طریقوں پر مبنی پمفلٹ بھی ہوتاہے۔ یہ ڈبے عموماً ایک یا دو آموں کے لیے ہوتے ہیں۔

میازاکی خوبصورت اور خوشما دکھائی دینے کے ساتھ ساتھ اپنے ذائقے میں بھی سب سے الگ ہے۔ یہ انتہائی میٹھا، رسیلا، ملائی کی طرح منہ میں گھل جانے والا اور خوشبودار ہوتا ہے۔ اس میں ریشہ نہیں ہوتا اور کاٹنے پر اس کا گودا بہت ملائم ہوتا ہے۔ یہ خصوصیات اسے دوسرے آموں سے منفرد بناتی ہیں۔

میازاکی آم کے ڈبے میں ایک پمفلٹ بھی موجود ہوتا ہے جس میں آم کی خصوصیات اور اسے کاٹنے اور کھانے کے طریقے درج ہوتے ہیں۔ فائل فوٹو
میازاکی آم کے ڈبے میں ایک پمفلٹ بھی موجود ہوتا ہے جس میں آم کی خصوصیات اور اسے کاٹنے اور کھانے کے طریقے درج ہوتے ہیں۔ فائل فوٹو

گرین ہاؤس عموماً میازاکی کو نیلامی کے ذریعے فروخت کرتے ہیں۔ یہ بولی 50 ڈالر فی آم سے کم نہیں ہوتی، لیکن ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ ایک ایک آم دو ہزار ڈالر تک میں فروخت ہوا۔

جاپان میں میازاکی زیادہ تر تحفے کے طور پر دیے جاتے ہیں اور اسے ایک قیمتی اور محبت بھرا تحفہ سمجھا جاتا ہے۔ ویسے بھی میازاکی کا لطف وہی اٹھا سکتے ہیں جنہیں یہ تحفے میں ملا ہو۔ مرزا غالب کو آم شاید اس لیے بھی پسند تھے کیونکہ وہ تحفے میں ملتے تھے۔ غالب اگر آج زندہ ہوتے تو کہتے کہ آم بس ایک ہی ہو اور میازاکی ہو۔

  • 16x9 Image

    جمیل اختر

    جمیل اختر وائس آف امریکہ سے گزشتہ دو دہائیوں سے وابستہ ہیں۔ وہ وی او اے اردو ویب پر شائع ہونے والی تحریروں کے مدیر بھی ہیں۔ وہ سائینس، طب، امریکہ میں زندگی کے سماجی اور معاشرتی پہلووں اور عمومی دلچسپی کے موضوعات پر دلچسپ اور عام فہم مضامین تحریر کرتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG