رسائی کے لنکس

پاکستان کے شمال میں عسکریت پسندی کی وجوہات کیا ہیں؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو
  • پاکستان کے شمالی علاقے مالا کنڈ ڈویزن میں 70 کی دہائی میں اسلامی تحریکیں اٹھنا شروع ہو گئیں تھیں۔
  • باجوڑ اور ضلع چلاس کے دشوارگزار پہاڑی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے تربیتی کیمپ قائم ہیں۔
  • چینی باشندوں پر حملہ داعش خراساں کے موقف کے قریب لیکن عملی پہنچ سے دور ہے۔
  • یہ حملہ ممکنہ طور کسی ایسے فری لانس گروپ نے کیا ہے جو معروف عسکری تنظمیوں کے لیے کام کرتے ہیں، اور تنظمیوں بوجوہ ذمہ داری قبول کرنے سے احتراز کرتی ہیں۔

جولائی 2021ء میں داسو میں چینی شہریوں پر حملے کے بعد شانگلہ میں چینی باشندوں پر یہ دوسرا بڑا حملہ ہے۔ لیکن اس خطے میں صرف چینی باشندے عسکریت پسندی کا نشانہ نہیں بنتے بلکہ وقتاً فوقتاً اس علاقے میں عسکریت پسندی کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔

اسلام آباد سے شمال کی جانب لگ بھگ 270 کلومیٹر دور بشام کا یہ مقام دراصل خیبرپختونخواہ کے مالاکنڈ ڈویژن اور ہزارہ ڈویژن کی سرحد پر واقع ہے۔ یہاں سے شروع ہونے والا مالاکنڈ ڈویژن باجوڑ تک پھیلا ہوا ہے جس کی سرحد افغان صوبہ کنڑ سے لگتی ہے۔

جس جگہ یہ واقعہ ہوا ہے پاک چین بارڈر یہاں سے لگ بھگ پانچ سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اپنی جغرافیائی ساخت کے باعث یہ خطہ جہاں بہت حساس سمجھا جاتا ہے، وہاں مذہبی انتہاپسندی کے حوالے سے بھی اس کی ایک تاریخ ہے۔

اس خطے میں تحریک نفاذ شریعت محمدی کا کیا کردار رہا؟

خطے میں انتہاپسندی کے حوالے سے کئی کتابوں کے مصنف اور معروف صحافی عقیل یوسفزئی کا کہنا ہے کہ دراصل مالاکنڈ ڈویژن سے اٹھنے والی تحریک نفاذ شریعت محمدی نے ہزارہ ڈویژن اور یہاں تک کہ گلگت بلتستان تک کو متاثر کیا۔

وہ کہتے ہیں،"مالاکنڈ ڈویژن کا ضلع چترال، افغانستان کے نورستان علاقے سے لگتا ہے جہاں 70 کی دہائی کے آواخر اور 80 کی دہائی میں مولوی افضل نے محدود پیمانے پر ایک سلفی ریاست کی بنیاد رکھنے کی کوششیں کیں۔ بعد ازاں 1990ء میں شیخ جمیل الرحمٰن نے باجوڑ سے ملحقہ افغان صوبہ کنڑ میں اس طرح کی ریاست کے قیام کی کوشش کی اور اس کے تین سال بعد سرحد کے اس پار مالاکنڈ میں مولانا صوفی محمد نے 1994ء میں تحریک نفاذ شریعت محمدی کا آغاز کیا۔"

معروف صحافی اور مصنف عقیل یوسفزئی نے وائس آف امریکہ اردو سے اس کے بعد کی صورت حال کا ذکر کرتے ہوئے کہا،"پھر ہم نے دیکھا کہ یہ شاہراہ قراقرم تک پہنچ گئی اور تحریک کی جانب سے مظاہروں کے دوران زبردستی اس شاہراہ کو بند کیا جانے لگا۔ اسی تحریک کے لوگ بعد ازاں مالاکنڈ ڈویژن میں تحریک طالبان پاکستان کا حصہ بنے جس میں خود مولانا صوفی محمد کے داماد ملا فضل اللہ بھی شامل تھے۔"

دنیا بھر میں عسکریت پسندی کے حوالہ سے تحقیق کرنے والے ادارے سٹین فورڈ نے اپنی ویب سائٹ پر تحریک نفاذ شریعت محمدی کا خاکہ، تاریخ اور ساخت کے حوالے سے رپورٹ دی ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس تنظیم کا ایک بڑا ٹریننگ کیمپ قبائلی ضلع باجوڑ میں تھا، اس کے علاوہ کچھ ٹریننگ کیمپ گلگت بلتستان کے ضلع چلاس میں داریل اور تانگیر کے پہاڑوں میں بھی تھے۔

2009ء میں تحریک نفاذ شریعت محمدی کے ساتھ معاہدے کے بعد یہی علاقہ تھا جہاں طالبان داخل ہوئے اور جس کے بعد جمیعت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے بیان دیا کہ طالبان اسلام آباد سے زیادہ دور نہیں ہیں۔

اس کے بعد اس علاقے میں 26اپریل 2009ء کو آپریشن ’بلیک تھنڈر‘ کا آغاز ہوا جس کے نتیجہ میں یہاں سے 30 لاکھ سے زائد شہریوں کا انخلاء ہوا۔ آپریشن جون تک جاری رہا اور اگست میں شہریوں کی واپسی ہوئی۔

اس آپریشن کے نتیجے میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے رہنما ملا فضل اللہ اپنے سینکڑوں ساتھیوں سمیت افغانستان کے صوبہ کنڑ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ انہی کے ساتھ بارودی جیکٹ تیار کرنے کے ماہر ٹی ٹی پی سوات کے طارق بٹن خراب بھی تھے۔

طارق بٹن خراب کون تھے؟

14 جولائی 2021ء کو شانگلہ میں جس مقام پر چینی باشندوں پر حالیہ حملہ ہوا اس سے لگ بھگ 70 کلومیٹر دور اپرکوہستان کے علاقے داسو میں چینی شہریوں پر مشتمل ایک بس کو خودکش حملے کا نشانہ بنایا گیا۔ اس حملے میں 9 چینی شہری مارے گئے۔

10 نومبر 2022ء کو اس واقعہ میں ملوث افراد کو ایبٹ آباد میں قائم انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے سزائے موت اور عمر قید کی سزائیں سنائیں۔ اس موقعہ پر ڈپٹی انسپکٹرجنرل آف پولیس ہزارہ ریجن ذیشان اصغر نے ایبٹ آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران کہا کہ خودکش حملہ اور خالد عرف شیخ کو بارودی مواد سے لیس کرنے والا طارق بٹن خراب روپوش ہے۔

سوات کے مقامی ذرائع کے مطابق ایک بار طارق بٹن خراب کی خودکش جیکٹ ہدف کے قریب پہنچنے کے باوجود بٹن کی خرابی کے باعث نہیں پھٹی، جس کے باعث قریبی ساتھی انہیں بٹن خراب کے نام سے پکارنے لگے۔

جولائی 2023ء میں سیکیورٹی ذرائع سے خبر ملی کہ افغانستان کے صوبہ کنڑ کے علاقے پیچ درہ میں طارق بٹن خراب قتل کر دیے گئے۔ ان کے حوالے سے یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ کراچی میں 26 اپریل 2022ء کو چینی لینگوئج سینٹر پر خودکش حملے میں بھی طارق بٹن خراب کا ہاتھ تھا۔

کیا حالیہ حملے کے تانے بانے پاکستانی طالبان سے جڑتے ہیں؟

اس حوالے سے معروف محقق، تجزیہ نگار اور صحافی ریکارڈو ولے، جو ایک عرصہ سے عالمی سطح پر عموماً اور پاک افغان خطے کو خصوصی طور پر دیکھ رہے ہیں، کا کہنا ہے کہ ماضی میں ذمہ داری قبول نہ کرنے کے باوجود پاکستانی طالبان کے کچھ عناصر ایسی کاروائیوں میں ملوث پائے گئے۔

ریکارڈو ولے کا کہنا ہے،۔"اگرچہ ٹی ٹی پی نے اس حملے میں اپنے ملوث ہونے کی تردید کی ہے، لیکن یہ یاد رہے کہ ماضی میں بھی چینی شہریوں کو نشانہ بنانے والے کچھ حملے ہوئے ہیں جن کا دعویٰ نہیں کیا گیا۔ تاہم بعد ازاں تفتیشی عمل کے دوران اس طرح کے تمام حملوں میں پاکستانی طالبان خاص طور پر ٹی ٹی پی سے یا تو کچھ عناصر براہ راست ملوث پائے گئے یا کہیں نہ کہیں ان کے نشان ملے۔"

"اس سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہےکہ کچھ افراد اور گروہ ایسے ہیں جو خطے میں دیگر عسکریت پسند تنظیموں کے لیے فری لانسر (آزادانہ) طور پر کام کرتے ہیں تاکہ ایسے حملے کیے جائیں جس کے اگر کھلے عام دعویٰ کیے جائیں تو یہ تنظیموں کے لیے دوسری صورت میں متنازعہ یا نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔"

عسکریت پسندوں کی چین سے دشمنی کیوں؟

اس وقت اس خطے میں 2014ء میں بننے والی تنظیم دولت اسلامیہ فی ولایت خراسان یا داعش کی جانب سے کھل کر چین کے خلاف جنگ کی بات کی جا رہی ہے۔ گو کہ وسطی ایشیائی تنظیمیں خصوصاً ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ چین کے خلاف جنگ کی بات کرتی رہی ہیں، لیکن اگست 2021ء میں افغانستان میں طالبان حکومت کی آمد کے بعد ان تنظیموں کی جانب سے خاموشی چھا گئی ہے۔

چین کے ساتھ افغان طالبان عبوری حکومت کے رابطوں کے بعد داعش یہ سمجھنے لگی ہے کہ وہ چین کے صوبہ سنکیانگ کے مسلمانوں کے لیے آواز اٹھا کر افغانستان اور اس خطے میں موجود ایغور اور وسطی ایشیائی جنگجوؤں کو اپنی طرف کھینچ سکتی ہے۔

فروری 2023ء میں داعش افغانستان کے میڈیا پلیٹ فارم العزائم نے پہلی مرتبہ چین اور طالبان کے بڑھتے تعلقات پر سنکیانگ کے مسلمانوں کے لیے وسطی ایشیائی جنگجو تنظیموں کا داعش کا ساتھ دینے کی اپیل کی۔

"واہ! زما شرقی ترکستانہ" کے نام سے 117 صفحات پر مشتمل پشتو میں لکھے گئے اس کتابچے میں خاص طور پر مسلمان ممالک پر چین کا ساتھ دینے کے حوالے سے تنقید کی گئی۔

داعش نے حال ہی میں روس کے شہر ماسکو میں ہونے والے حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ تو کیا ماسکو اور شانگلہ میں ہونے والے حملے کا آپس میں کوئی ربط ہے؟ اس بارے میں صحافی محقق ریکارڈو ولے سمجھتے ہیں کہ روس میں ہونے والے حملے کے جغرافیائی حقائق اور ہیں۔ وہاں داعش کے مقامی سیل موجود ہیں۔

صحافی، محقق ریکارڈو ولے کہتے ہیں،"مجھے نہیں لگتا کہ دونوں حملوں کا براہ راست کوئی تعلق ہے۔ جغرافیائی اور نظریاتی محرکات یہاں علیحدہ علیحدہ ہیں۔ ماسکو حملہ داعش کے ایک مقامی سیل یا نیٹ ورک نے کیا تھا جس کا داعش خراسان گروہ سے ایک ممکنہ تعلق بنتا ہے۔ جب کہ چینی شہریوں کے خلاف یہ حملہ گو کہ، داعش خراسان کے ہدف کے انتخاب اور بیانیے میں فٹ بیٹھتا ہے لیکن جغرافیائی اعتبار سے یہ داعش کے لیے ایک غیر معمولی مقام پر ہوا ہے۔"

ریکارڈو نے مزید کہا، " اگر اس حملے کے پیچھے داعش کا ہاتھ ہوتا تو وہ یقینی طور پر اسے عالمی طاقتوں روس، امریکہ اور چین کے خلاف اپنی جنگ کی ایک کاروائی کے طور پر پیش کرتے ہوئے اس کا دعویٰ ضرورکرتا۔"

مقامی سیکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ اس واقعہ کی سرگرمی اور گہرائی سے تفتیش کی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جو بھی عناصر اس حملے میں ملوث ہوں گے ماضی کی طرح ان کو بھی پکڑنے میں کامیابی ملے گی اور ان کو بھی عدالت سے مثالی سزائیں دلائی جائیں گی۔

  • 16x9 Image

    سید فخر کاکاخیل

    سید فخرکاکاخیل دی خراسان ڈائری اردو کے ایڈیٹر ہیں۔ وہ مختلف مقامی، ملکی اور غیرملکی صحافتی اداروں کے  لیے پشتو، اردو اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ اس سے قبل وہ مختلف ٹی وی چینلز کے ساتھ انتظامی عہدوں پر رہ چکے ہیں۔ زیادہ تر وہ پاک افغان اور وسطی ایشیا میں جاری انتہا پسندی اور جنگ کے موضوعات کے علاوہ تجارتی مضامین بھی لکھتے ہیں۔ حال ہی میں ان کی کتاب "جنگ نامہ: گلگت سے گوادر اور طالبان سے داعش تک گریٹ گیم کی کہانی" کے نام سے شائع ہوئی ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG