رسائی کے لنکس

بین المذاہب تنازع یا ذاتی جھگڑا، ننکانہ صاحب میں ہوا کیا تھا؟


ننکانہ صاحب میں سکھوں کی سب سے اہم مذہبی مقام ہے — فائل فوٹو
ننکانہ صاحب میں سکھوں کی سب سے اہم مذہبی مقام ہے — فائل فوٹو

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے ضلع ننکانہ صاحب میں گردوارہ جنم استھان کے باہر جمعے کو ہونے والا احتجاج بھارت کے ذرائع ابلاغ کی شہ سرخیوں میں ہے جبکہ سوشل میڈیا پر بھی پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے تقریبا 70 کلو میٹر کے فاصلے پر ضلع ننکانہ صاحب میں قائم گردوارہ جنم استھان سکھ برادری کے لیے نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ یہاں سکھ مذہب کے بانی بابا گورو نانک کی پیدائش ہوئی تھی۔

جمعے کو احتجاج میں گردوارہ کے باہر مظاہرین نے اس کے مرکزی دروازے کو نقصان پہنچایا۔

گردوارہ کی انتظامیہ کے مطابق جس وقت احتجاج شروع ہوا اس وقت ان کی عبادت کا وقت تھا اور گرودوارہ کے اندر لگ بھگ 20 لوگ موجود تھے۔ جن میں خواتین اور بچے بھی تھے۔

احتجاج کیوں اور کب شروع ہوا؟

ننکانہ صاحب کے گردوارے کے باہر ہونے والا احتجاج اس وقت شروع ہوا جب قریب واقع ایک دکان پر مقامی گاہکوں نے ہوٹل میں موجود ثقلین اور مختار سے چائے سے متعلق شکایت کی۔ تلخ کلامی کے بعد بات ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔

عینی شاہدین کے مطابق ثقلین اور مختار نے گردوارے کے سامنے واقع اپنے گھر سے مزید رشتے داروں کو بلا لیا جو کہ کچھ دن پہلے ان کے ایک اور کزن کی وفات کے بعد اکٹھے ہوئے تھے۔

جس کے بعد اس لڑائی کو مذہبی رنگ دیتے ہوئے گردوارہ کے باہر احتجاج شروع ہوا۔

مذہبی رنگ کس نے اور کیوں دیا

اس احتجاج کے حوالے سے سوشل میڈیا پر متعدد ویڈیوز زیرگردش ہیں۔

احتجاج سے متعلق شیئر کی جانے والی ویڈیوز میں ایک شخص احتجاج میں شریک مظاہرین کے سامنے گردوارہ کی جگہ مسجد بنانے کا اعلان کرتا دیکھا جا سکتا ہے۔

مقامی افراد نے اس شخص کو محمد عمران کے نام سے شناخت کیا ہے۔

محمد عمران کون ہے؟

پنجابی سکھ سنگت کے چیئرمین گوپال سنگھ چاولہ احتجاج کے وقت گردوارے میں موجود تھے۔

احتجاج کے حوالے سے گوپال سنگھ چاولہ کا کہنا تھا کہ اس جھگڑے کو مذہبی رنگ محمد عمران نامی شخص نے دیا جو کہ لڑائی کے وقت ہوٹل پر موجود ثقلین کا بڑا بھائی ہے۔

محمد عمران کے چھوٹے بھائی محمد احسان پر پچھلے سال اگست میں ایک سکھ لڑکی جگجیت کور کے مبینہ اغوا کا الزام عائد کیا گیا تھا جب کہ ان پر لڑکی کا مذہب جبری طور پر تبدیل کرکے اس سے شادی کا الزام بھی لگایا گیا تھا۔

تاہم گورنر پنجاب چوہدری سرور نے پچھلے تین ستمبر کو محمد احسان کے والد، ان کے وکیل اور لڑکی جگجیت کور کے والد اور بھائی سے ملاقات کی۔ بعد ازاں گورنر پنجاب نے ایک ویڈیو پیغام میں دعویٰ کیا تھا کہ دونوں خاندانوں میں صلح ہوگئی ہے۔

پنجابی سکھ سنگت کے چیئرمین گوپال سنگھ چاولہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس واقعے کو مذہبی رنگ دینے کے پیچھے جگجیت کور کو اغوا کرنے والا خاندان ہے اور اس وجہ سے پورا ننکانہ شہر پریشان ہے۔

گوپال سنگھ چاولہ کا مزید کہنا تھا کہ محمد احسان کے بھائی عمران نامی شخص نے لوگوں کو اشتعال دلایا جب جس چائے خانے زمان ہوٹل پر جھگڑا ہوا وہ ان کے چچا زمان کا ہے۔ وہاں جس لڑکے کی لڑائی گاہکوں سے ہوئی۔ وہ بھی ان کا ہی بھائی ہے۔

پنجابی سکھ سنگت کے چیئرمین کا مزید کہنا تھا کہ اس خاندان کے پیچھے کسی غیر ملکی ادارے کا ہاتھ ہے۔

ان کے بقول یہ لوگ گردوارے میں ساؤنڈ سسٹم لگاتے تھے جب کہ ان کا والد گردوارے میں مالی تھا۔

انہوں نے کہا کہ پچھلے سال اگست میں سکھ لڑکی کو اغوا بھی انہوں نے ہی کیا تھا۔

لڑکی کے اغوا سے متعلق گوپال سنگھ کا مزید کہنا تھا کہ یہ لوگ گورنر کے سامنے تو تمام باتیں مان گئے تھے لیکن بعد میں ان سے مکر گئے۔

انہوں نے بتایا کہ اس لڑائی کو مذہبی رنگ دیتے ہوئے عمران نے ہی لوگوں سے کہا کہ یہ گاہک سکھ برادری کی طرف سے آئے ہیں اور پھر گردوارہ کے باہر احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

بعدازاں محمد عمران کی طرف سے جاری کردہ ویڈیو پیغام میں سکھ برادری سے جمعے کے واقعے پر معذرت کی گئی۔
عمران کا کہنا تھا کہ سکھ ہمارے بھائی ہیں اور رہیں گے۔
ویڈیو پیغام میں محمد عمران نے مزید کہا کہ وہ پہلے کی طرح سکھ برادری کے گردوارے کی عزت کریں گے۔
انہوں نے اپنے بیان کی وجہ سے کسی کی دل آزاری پر معذرت بھی کی ہے۔

'یہ بنیادی طور پر انفرادی مسئلہ تھا'

ضلع ننکانہ صاحب سے رکن پنجاب اسمبلی میاں محمد عاطف نے وائس آف امریکہ کو واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ یہ بنیادی طور پر انفرادی مسئلہ تھا۔ جسے بڑھا چٍڑھا کر پیش کیا گیا۔

میاں عاطف کے مطابق جس وقت لڑائی ہوئی اس وقت ہوٹل پر سب مسلمان ہی بیٹھے ہوئے تھے۔ اس معاملے کو دشمن ملک (بھارت) کی طرف سے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔

واقعے کو مذہبی رنگ دیے جانے سے متعلق میاں عاطف کا کہنا تھا کہ شر پسند عناصر ہر جگہ ہوتے ہیں۔ کچھ لوگوں نے اس جھگڑے کو مذہبی رنگ دے دیا۔

انہوں نے کہا کہ پورے ننکانہ ضلعے اور ننکانہ شہر میں کوئی مذہبی مسئلہ نہیں ہے جب کہ گردوارے میں بھی معمول کی سرگرمیاں چل رہی ہیں۔

بھارت کی وزارت خارجہ کی مذمت

بھارت کی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے ننکانہ صاحب گردوارے میں ہونے والی مبینہ توڑ پھوڑ کی شدید مذمت کی ہے۔

ایک ٹوئٹ میں انہوں نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ پاکستان سکھ برادری کی حفاظت اور سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے فوری اقدامات کرے۔

'گردوارہ ننکانہ صاحب کو کوئی نقصان نہیں پہنچا'

پاکستان کی وزارت خارجہ نے اس احتجاج سے متعلق بیان میں ہاتھا پائی کو معمولی واقعہ قرار دیا

وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اس واقعے کو بین المذاہب مسئلہ قرار دینے کی کوشش کی گئی ہے۔

بیان کے مطابق اہم بات یہ ہے کہ گردوارہ ننکانہ صاحب کو کوئی نقصان نہیں پہنچا اور گردوارہ محفوظ ہے۔

ننکانہ صاحب کی سکھ برادری کے لیے اہمیت

ننکانہ صاحب میں مرکزی گردوارے کے علاوہ آٹھ دیگر گردوارے بھی موجود ہیں۔ جن میں گردوارہ پٹی صاحب، گردوارہ تمبو صاحب، گردوارہ بالیلہ صاحب، گردوارہ پنجویں پادشاہی،گردوارہ مال جی صاحب اورگردوارہ کیارہ صاحب شامل ہیں۔

گردوارہ جنم استھان کے اطراف سکھوں کے قیام و طعام کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں جبکہ سکھ مذہب کے آخری گورو، گورو گوبند سنگھ کے جنم دن کی تقریبات رواں ماہ تین سے پانچ جنوری تک منعقد ہونا تھی۔

جمعے کو ہونے والے احتجاج کے بعد اب تقریبات چار اور پانچ جنوری کو منائی جا رہی ہیں۔

XS
SM
MD
LG