رسائی کے لنکس

بھارت کے آئین کی دفعہ 370 اور 35-اے کیا ہے؟


کشمیریوں کا ماننا ہے کہ آرٹیکل 35 اے کے خاتمے کے بعد بھارت کی دوسری ریاستوں سے آکر لوگ یہاں جائیدادیں خریدیں گے اور مسلمان اقلیت بن کر رہ جائیں گے۔
کشمیریوں کا ماننا ہے کہ آرٹیکل 35 اے کے خاتمے کے بعد بھارت کی دوسری ریاستوں سے آکر لوگ یہاں جائیدادیں خریدیں گے اور مسلمان اقلیت بن کر رہ جائیں گے۔

بھارت کے آئین کی دفعہ 370 کی ذیلی شق 35 اے کی وجہ سے ریاست جموں کشمیر کو یونین میں ایک خصوصی حیثیت حاصل تھی لیکن اس حیثیت کو صدارتی حکم نامے کے ذریعے تبدیل کردیا گیا ہے۔

بھارت کے آئین کی دفعہ 370 کی وجہ سے صرف تین معاملات ہی مرکزی حکومت کے پاس تھے، جن میں سیکیورٹی، خارجہ اور مواصلات سے متعلق امور شامل ہیں جب کہ ذیلی شق دفعہ 35-اے کے تحت جموں کشمیر کو ریاست کی حیثیت حاصل تھی اور تمام امور کا فیصلہ مقامی اسمبلی کے ہاتھ میں تھا​۔

دفعہ 35-اے کی تاریخ:

جموں و کشمیر پر 1947 میں بھارت کے کنٹرول کے بعد اُس وقت کے وزیر اعظم شیخ عبد اللہ نے کشمیر سے متعلق دفعہ 370 کا ڈرافٹ تیار کیا۔ جس کے مطابق ریاست کے دفاعی، خارجی، اقتصادی اور مواصلاتی امور مرکز کے پاس ہوں گے۔

شیخ عبداللہ نے مہاراجا ہری سنگھ اور جوال لعل نہرو پر زور دیا کہ اس دفعہ کو عارضی طور پر نہیں بلکہ اس کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو خود مختار بنایا جائے لیکن مرکزی حکومت نے اُن کی اس خواہش پر عملدر آمد نہیں کیا۔

بھارت کے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کی ہدایت پر اُس وقت کے صدر رجندرا پرساد نے دفعہ 370 کے تحت 1954 میں حکم نامہ جاری کیا جسے دفعہ 35-اے کا نام دے کر آئین کا حصہ بنایا گیا۔

دفعہ 35- اے ریاست کی قانون ساز اسمبلی کو اختیار دیتی ہے کہ وہ مستقل رہائشیوں کا تعین کرنے کے لیے قانون سازی کرے۔

دفعہ 35-اے کے مطابق کوئی شخص صرف اسی صورت میں جموں و کشمیر کا شہری ہو سکتا ہے، اگر وہ یہاں پیدا ہوا ہو۔ کسی بھی دوسری ریاست کا شہری جموں و کشمیر میں جائیداد نہیں خرید سکتا اور نہ ہی یہاں کا مستقل شہری بن سکتا ہے۔

دفعہ 35-اے کے تحت بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں زمین کی خرید و فروخت کے علاوہ سرکاری نوکریوں اور وظائف، ریاستی اسمبلی کے لیے ووٹ ڈالنے اور دوسری مراعات کا قانونی حق صرف اُس کے مستقل باشندوں کو حاصل تھا۔

جموں کمشیر میں مقامی سیاسی قیادت نے ریاست کی حیثیت تبدیل کرنے کے خاتمے پر کڑی تنقید کی ہے۔ (فائل فوٹو)
جموں کمشیر میں مقامی سیاسی قیادت نے ریاست کی حیثیت تبدیل کرنے کے خاتمے پر کڑی تنقید کی ہے۔ (فائل فوٹو)

کشمیریوں کا ماننا ہے کہ دفعہ 35-اے کے خاتمے کے بعد بھارت کی دوسری ریاستوں سے آکر لوگ یہاں جائیدادیں خریدیں گے اور مسلمان اقلیت بن کر رہ جائیں گے۔

بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) عرصہ دراز سے جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت کی مخالف رہی ہے اور یہ اس کے انتخابی منشور کا بھی اہم حصہ رہا ہے۔

یاد رہے کہ بھارت کے 2019 کے انتخابات سے قبل، دفعہ 370 اُس وقت احتجاج، مباحثوں اور تنازع کی وجہ بن گیا تھا جب بی جے پی نے اس کے خاتمے کے وعدے کو اپنے انتخابی منشور میں شامل کیا تھا جس پر آج (بروز پیر) باضابطہ طور پر عمل در آمد کر دیا گیا ہے۔

آرٹیکل 35 اے کے خاتمے سے کیا ہوگا؟

بی جے پی حکومت نے صدارتی حکم نامے کے ذریعے دفعہ 35 اے کو ختم کردیا ہے جس کے بعد جموں کشمیر کو حاصل ریاست کا درجہ ختم کر کے اسے یونین کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔

اس دفعہ کے خاتمے کے بعد غیر کشمیری بھی کشمیر میں منقولہ جائیدادیں بنا سکیں گے۔

اقوام متحدہ کی قرار داد کے مطابق جموں کشمیر کو جداگانہ حیثیت حاصل ہے۔ اور دفعہ 35 اے کے خاتمے سے جداگانہ حیثیت پر بھی قدغن لگے گی۔

جموں کشمیر میں مقامی سیاسی قیادت کئی بار باور کراچکی ہے کہ اگر بھارت کے زیر انتظام کشمیر کو حاصل ریاستی حیثیت ختم کی گئی تو اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی خبردار کر چکی ہیں کہ ’’اگر جموں کشمیر کے باشندوں کو ملنے والی مراعات میں کسی طرح کی تبدیلی کی گئی تو ریاست میں ’ترنگے‘ (بھارتی پرچم) کو تھامنے والا کوئی نہیں رہے گا۔‘‘

XS
SM
MD
LG