رسائی کے لنکس

صدر بائیڈن کے اسرائیل کی ’’اندھا دھند بمباری‘‘ کے ریمارکس پر وائٹ ہاؤس کی وضاحت


 صدر جو بائیڈن اور اسرائیلی وزیر اعظم کی حماس اسرائیل تنازعے کے بعد اکتوبر 18, 2023 کو تل ابیب میں ملاقات ۔اے پی فوٹو
صدر جو بائیڈن اور اسرائیلی وزیر اعظم کی حماس اسرائیل تنازعے کے بعد اکتوبر 18, 2023 کو تل ابیب میں ملاقات ۔اے پی فوٹو

بعض حلقوں میں اس تاثر کا اظہار کیا جارہا ہے کہ وائٹ ہاؤس صدر جو بائیڈن کے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے بارے میں سخت بیان سے پیچھے ہٹ رہا ہے۔ صدر نے کہا تھا کہ غزہ میں اسرائیل کی ’’اندھا دھند بمباری‘‘ کے باعث اسرائیل بین الاقوامی سطح پر حمایت کھو رہا ہے۔

غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیل کی 10 ہفتے سے جاری فوجی مہم میں 18,000 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

امریکہ کی نیشنل سیکیورٹی کونسل کے اسٹریٹیجک کمیونی کیشن کوآرڈینیٹر جان کربی نے بدھ کی بریفنگ کے دوران وائس آف امریکہ کو اس بیان کے حوالے سے بتایا کہ ’’ صدر اس تشویش کا اظہار کر رہے تھے جو ہمیں اس فوجی آپریشن کے حوالے سے لاحق رہی ہے جس کا تعلق شہریوں کو پہنچنے والے نقصان کو کم کرنے اور ممکنہ حد تک درست اور محتاط رہنے کی ضرورت سے ہے۔‘‘

صحافیوں نے کربی سے بائیڈن کے اس بیان کی وضاحت کے لیے بار بار سوال کیا جس میں انہوں نے کہاتھا کہ اسرائیل "اندھا دھند بمباری" کی وجہ سے بین الاقوامی حمایت کھو رہا ہے۔

بین الاقوامی انسانی قانون ایسے بلا امتیاز حملوں کی ممانعت کرتا ہے جن میں فوجی مقاصد اور شہریوں یا املاک کے درمیان فرق نہیں کیا جاتا۔

کربی نے اگرچہ اس بات کی تصدیق کی کہ صدر امریکی خارجہ پالیسی کی بات کرتے ہیں تاہم انہوں نے اس سوال کے جواب میں، اس بارے میں کوئی تصدیق نہیں کی کہ آیا بائیڈن کا یہ بیان انتظامیہ کا اس بارے میں باضابطہ اندازہ ہے کہ اسرائیل اپنی فوجی کارروائیاں کس انداز میں کر رہا ہے۔

کربی کا یوں گریز کرنا انتظامیہ کی طرف سے ملنے والے ملے جلے پیغامات میں اضافہ تھا جن میں محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے منگل کے روز کہا تھا کہ ’’اندھا دھند'‘ ہمارا اندازہ نہیں ہے۔

انتظامیہ نے اسرائیل کو فوجی اور سفارتی مدد فراہم کی ہے جس میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قرارداد کے خلاف ویٹو بھی شامل ہے۔

جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے ایلیٹ اسکول آف انٹرنیشنل افیئرز میں خلیج اور جزیرہ نما عرب امور کے لئے کویت سے پروفیسر گورڈن گرے نے کہا کہ بائیڈن کی سرزنش غزہ میں اموات کی بلند شرح پر بڑھتی ہوئی امریکی تشویش کی واضح علامت ہے۔

امریکی دباؤ

امریکی انتظامیہ اسرائیل پر دباؤ بڑھانے کے لیے تیار ہے۔خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق، جمعرات کو جان کر بی نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان کی جمعرات کو نیتن یاہو اور ان کی جنگی کابینہ سے ملاقات میں مستقبل میں اسرائیل کی "کم شدت والی کارروائیوں" کی جانب منتقلی پر غور کیا گیا۔

سلیوان نے وال سٹریٹ جرنل کے ساتھ ایک حالیہ انٹرویو میں کہا کہ وہ اسرائیلی حکام کو انتظامیہ کے خدشات سے آگاہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں کہ اسرائیل اپنی فوجی کارروائیوں کے اگلے مرحلے کو مکمل کرنے میں کتنا وقت لے گا۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس مہم میں مہینوں کا وقت لگ سکتا ہے۔

سلیوان نے توجہ دلائی کہ اسرائیل نے پچھلے کئی ہفتوں کے دوران انتہائی شدید فوجی آپریشنز کیے ہیں تاہم ان کے علاوہ بھی کئی اور طریقے موجود ہیں جو وہ حماس کو ہدف بنانے کے لئے اختیار کر سکتا ہے۔

سلیوان نے کہا کہ’’یہ ضروری نہیں ہے کہ آپ حماس کے اہداف اور حماس کی قیادت پر دباؤ ڈالنے یا یرغمالوں کی رہائی کو محفوظ بنانے کے لیے اپنے تمام حربے آزمانے سے بالکل کچھ نہ کرنے پر آجائیں بلکہ انہوں نے کہا،' اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ آپ ان انتہائی شدید کارروائیوں سے جو ہم آج دیکھ رہے ہیں، ایک مختلف مرحلے میں چلے گئے ہیں ۔"

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جنگ بندی قرارداد کی اکثریت سے منظوری اکتوبر 27, 2023 اے پی فوٹو
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جنگ بندی قرارداد کی اکثریت سے منظوری اکتوبر 27, 2023 اے پی فوٹو

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جنگ بندی کی قرارداد کے حق میں بھاری اکثریت سے منگل کے روز ہونے والے ووٹ کے بعداسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے کہا کہ ’’انتہائی بین الاقوامی دباؤ کے باوجود‘‘ اسرائیل کو کوئی چیز نہیں روک سکے گی۔

اسرائیلی وزیر خارجہ ایلی کوہن نے کہا ہے کہ غزہ میں فوجی آپریشن ’’بین الاقوامی حمایت کے ساتھ یا اس کے بغیر‘‘ بھی جاری رہے گا۔

بائیڈن انتظامیہ کو بھی بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا ہے۔ اس میں بائیڈن کی اپنی ڈیموکریٹک پارٹی بھی شامل ہے جس میں شہری ہلاکتوں کو محدودکرنے اور اس بات کو یقینی بنانے کے مطالبات سامنے آ رہے ہیں کہ اسرائیل کو بھیجے گئے امریکی ہتھیار روایتی ہتھیاروں کی منتقلی کی پالیسی کے مطابق استعمال کئے جائیں ۔ پالیسی کے تحت یہ ضروری ہے کہ ہتھیاروں کی فروخت میں انسانی حقوق کے تحفظ اور بین الاقوامی انسانی قانون کی پابندی سمیت اقدار کو بھی مدنظر رکھا جائے۔

بائیڈن انتظامیہ نے کانگریس کی جانب سے فوجی سازو سامان کی غیر ملکی فروخت کے لیے جائزے کی ضرورت کو نظرانداز کیا اور اسرائیل کے لیے ٹینک گولہ بارودکے تقریباً 14,000 راؤنڈ کی فروخت کی منظوری دی۔ امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ اس نے جمعہ کےروز کانگریس کو اس فروخت کے بارے میں مطلع کیا تھا جب وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے اس بات کا تعین کیا تھا کہ ’’ایک ایسی ہنگامی صورتحال موجود ہے جس کے تحت اسلحہ کی فوری فروخت کی ضرورت ہے۔‘‘

قانون سازوں کی منظوری کے بغیر ہتھیاروں کی ترسیل شاذ ہی کی جاتی ہے لیکن یہ ایسی بات نہیں جس کی پہلے کوئی مثال نہ ہو۔ جان کربی نے کہا کہ ایسا ’’معمول کے با ضابطہ مشاورتی عمل کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کیا گیا۔‘‘

اسرائیلی وزیر اعظم اپن کابینہ کے وزرا کے ساتھ ۔اے پی فوٹو
اسرائیلی وزیر اعظم اپن کابینہ کے وزرا کے ساتھ ۔اے پی فوٹو

سخت گیرمؤقف کے حامل اسرائیلی

امریکی صدر جو بائیڈن نے منگل کو ایک آف کیمرہ ایونٹ کے دوران ڈیموکریٹک پارٹی کے عطیہ دہندگان سے خطاب کرتے ہوئےنیتن یاہو کے اتحاد میں سخت گیرمؤقف رکھنے والوں کا ذکر کیا اور کہا کہ موجودہ اسرائیلی حکومت ملک کی تاریخ میں سب سے زیادہ قدامت پسند حکومت ہے اوراسے تبدیل ہونا چاہئیے۔

وائٹ ہاؤس کی جانب سے اس تقریب کی تفصیلات کے مطابق صدر بائیڈن نے کہا کہ اسرائیل کے قومی سلامتی کے وزیر اتمار بن گووئیر اور دیگر سخت گیر مؤقف کے حامل صرف ’’انتقام‘‘ چاہتے ہیں اور وہ آزاد فلسطینی ریاست کے لیے، دو ریاستی حل کے لیے کام نہیں کریں گے۔

کربی نےبن گووئیر سے متعلق بائیڈن کے بیان کے بارے میں بریفنگ کے دوران وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بائیڈن انتظامیہ طویل عرصے سے ’’اسرائیلیوں کو ان خدشات سے آگاہ کر رہی ہےجن کا تعلق کچھ ایسی اصلاحات سے ہے جن پر یہ نئی حکومت عمل پیرا ہے۔‘' وہ اسرائیل کے اپنےلیڈروں کا تعین کرنے کے حق کا احترام بھی کرتے ہیں اور ’’ صدر بائیڈن نے یہ اظہار خیال اسرائیلی جمہوریت اور اسرائیلی عوام کے لیے حقیقی احترام اور محبت کی وجہ سے کیا ہے۔‘‘

وائس آف امریکہ

فورم

XS
SM
MD
LG