رسائی کے لنکس

کووڈ سے دنیا بھر میں اموات کی اصل تعداد سرکاری اعداد و شمار سے تین گنا زیادہ ہے، عالمی ادارہ صحت


فائل فوٹو: جموں میں لوگ اپنے رشتے دار کی کووڈ سے ہلاکت کے بعد اس کو آ خری رسومات کے لیے لے جار ہے ہیں۔
فائل فوٹو: جموں میں لوگ اپنے رشتے دار کی کووڈ سے ہلاکت کے بعد اس کو آ خری رسومات کے لیے لے جار ہے ہیں۔

عالمی ادارۂ صحت نے کہا ہے کہ وبائی مرض کووڈ نائنٹین کے باعث 2020 اور 2021 میں دنیا بھر میں لگ بھگ ڈیڑھ کروڑ افراد ہلاک ہوئے اور یہ تعداد اس بیماری سے ہونے والی ہلاکتوں کے بارے میں سرکاری طور پر جاری کردہ اعداد وشمار سے تقریباً تین گنا زیادہ ہے۔تاہم بھارت نے اپنے ملک میں ہونے والی ہلاکتوں سے متعلق ادارے کے اعداد و شمار پر اعتراض اٹھایا ہے۔

مختلف ممالک اور ذرائع سے جاری ہونے والی معلومات کے مقابلے میں عالمی ادارۂ صحت کے جاری کردہ یہ اعداد و شمار عالمی بحران کے وسیع تر اثرات کی وضاحت کرتے ہیں اور ان سے گزشتہ ایک صدی کی بدترین وبائی بیماری کی زیادہ حقیقت پسندانہ تصویر سامنے آئی ہے۔

جمعرات کو جب یہ اعداد و شمار منظرعام پر آئے تو اس روز بھی مختلف اندازوں کے مطابق دنیا بھر میں 500 سے زائد لوگ کرونا وائرس کے شکار ہوچکے تھے ۔ اگرچہ زیادہ تر ممالک میں کرونا کے پھیلاؤ کی صورتِ حال قابو میں آچکی ہے لیکن اب بھی یہ مرض ہر ہفتے ہزاروں انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب بن رہا ہے۔

اقوامِ متحدہ کے ادارۂ صحت کا کہنا ہے کہ یکم جنوری 2020 سے 31 دسمبر 2021 کے دوران براہ راست یا بالواسطہ طور پر کووڈ 19 کی وبا سے مرنے والوں کی تعداد تقریباً 14.9 ملین یعنی تقریباً ڈیڑھ کروڑ ہے۔ یہ اعداد شمار سامنے آنے سے قبل دنیا بھر میں کرونا سے ہلاکتوں کے جاری کردہ سرکاری اعداد شمار کے مطابق یہ تعداد تقریباً 54 لاکھ بتائی جارہی تھی۔

خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق یہ اعداد و شمار انتہائی حساس ہیں کیوں کہ یہ اس بحران سے نمٹنے سے متعلق دنیا بھر کے حکام کی کارکردگی اور اہلیت کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ اعداد وشمار سامنے آنے کے بعد کچھ ممالک اور خاص طور پر بھارت کی جانب سے عالمی ادارۂ صحت کی کرونا کے باعث ہونے والی ہلاکتوں کے اعداد و شمار کو متنازع قرار دے دیا جا رہا ہے۔

آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک بھارت کرونا سے شدید ترین متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔ بھارت میں سن 2020 اور 2021 کے دوران عالمی وبا سے ہونے والی اموات کی تعداد 481,000 بتائی گئی تھی لیکن عالمی ادارۂ صحت کے حالیہ اندازے کے مطابق بھارت میں اموات کی کل تعداد 33 لاکھ سے 65 لاکھ کے درمیان رہیں۔

بھارتی کشمیر: پہاڑی علاقوں میں بسے شہریوں کی ویکسی نیشن
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:07 0:00

اموات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ڈبلیو ایچ او کی ڈیٹا چیف، سمیرا اسماء نے ایک پریس کانفرنس میں کہا: "ہمیں ان زندگیوں کا احترام کرنا چاہیے جو المناک طور پر کم ہوگئیں، جانیں جو ہم نے کھو دیں - اور ہمیں خود کو اور اپنے پالیسی سازوں کو اس کے لیے جوابدہ بنانا چاہیے۔"

ادھر نئی دہلی نے ان اعداد و شمار کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کے سرکاری اعداد و شمار کے مقابلے عالمی ادارۂ صحت کی بتائی گئی دس گنا زیادہ تعداد غلط ہے۔

عالمی ادارۂ صحت نے تخمینہ لگایا ہے کہ 2020 کے بعد سے بھارت میں ہونے والی تقریبا 47 لاکھ اموات کو اس بحران سے جوڑا جاسکتا ہے کیوں کہ یہ اموات یا تو براہ راست کووڈ 19 سے ہوئیں یا بالواسطہ طور پر وبائی امراض کے صحت کے نظام اور معاشرے پر وسیع اثرات کا نتیجہ ہیں۔

بھارت کی وزارتِِ صحت اور خاندانی بہبود نے ایک بیان میں عالمی ادارۂ صحت پر الزام عائد کیا ہے کہ اس نے نئی دہلی کے خدشات کو مناسب طریقے سے دور کیے بغیر ڈیٹا شائع کیا ہے۔

عالمی وبا کےاثرات کی وجہ سے ہونے والی اموات

ایسے اعداد و شمار کا حساب ، جنہیں اضافی اموات کہا گیا ہے، کرونا سے پہلے کے برسوں کی اموات کی تعداد اور وبا کی عدم موجودگی میں ہونے والی متوقع اموات کے اعداد وشمار میں پائے جانے والےفرق کی بنیاد پر لگایا گیا ہے۔

اضافی اموات کے تخمینے میں نہ صرف کووڈ بیماری کی وجہ سے ہونے والی براہِ راست اموات شامل ہیں بلکہ اس میں بالواسطہ طور پر صحت کے نظام اور معاشرے پر وبائی امراض کے اثرات کی وجہ سے ہونے والی اموات کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

ڈیٹا کو ترتیب دیتے ہوئے ادارے نے وبائی امراض کے دوران حادثات یا کام کے دوران ہونے والی ہلاکتوں میں کمی کے پہلو کو بھی ملحوظِِ خاطر رکھا ہے۔

یاد رہے کہ عالمی ادارے نے 30 جنوری 2020 کو نئے کرونا وائرس کے کیسز چین سے باہر پھیلنے کے بعد اس مرض کو صحت عامہ کی بین الاقوامی ہنگامی صورت حال قرار دیا تھا۔

کرونا وبا سے امریکی شہریوں کی زندگی کیسے متاثر ہوئی؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:33 0:00

دنیا بھر کے ممالک نے 2020 اور 2021 میں ڈبلیو ایچ او کو 54 لاکھ سے کچھ زائد کووڈ 19 کی اموات کی اطلاع دی تھی۔ لیکن اب یہ اعداد و شمار 62 لاکھ سے کچھ زائد ہے۔ اور اس تعداد میں 2022 میں ہونے والی اموات بھی شامل ہیں۔

جنیوا میں قائم عالمی ادارہ طویل عرصے سے یہ کہتا آرہا ہے کہ اموات کی حقیقی تعداد کووڈ سے متاثرہ ہونے والی ریکارڈ شدہ اموات سے کہیں زیادہ ہیں۔

خیال رہے کہ وبائی مرض سے بالواسطہ طور پر منسلک ہونے والی اموات دیگر حالات سے بھی منسوب کی جاسکتی ہیں جیسا کہ لوگوں کا علاج تک رسائی حاصل کرنے سے قاصر ہونا۔ کیونکہ وبائی بحران کے دوران صحت کے نظام پر زیادہ بوجھ تھا۔

ان عوامل میں لوگوں کے سرجیکل آپریشن کیے جانے میں تاخیر، یا کینسر کے مریضوں کے لیے کیموتھراپی تک رسائی نہ ہونے جیسے محرکات بھی شامل ہو سکتے ہیں۔

بحران سے ہونے والے جانی نقصان کی تفصیل

عالمی ادارے کے مطابق کرونا وبا سے زیادہ تر یعنی 84 فی صد اموات جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیاء، یورپ اور امریکہ میں واقع ہوئیں۔

حقیقت تو یہ ہے کہ صرف 10 ممالک میں تمام اضافی اموات کا 68 فی صد ریکارڈ کیا گیا۔ ان ممالک میں برازیل، مصر، بھارت، انڈونیشیا، میکسیکو پیرو، روس، جنوبی افریقہ، ترکی اور امریکہ شامل ہیں۔

دنیا کے زیادہ آمدنی والے ممالک میں 15 فی صد اضافی اموات واقع ہوئیں جب کہ اعلیٰ متوسط آمدنی والے ممالک میں 28 فی صد ، کم درمیانی آمدنی والے ممالک میں 53 فی صداور کم آمدنی والے ممالک میں چار فی صد اموات واقع ہوئیں۔

عالمی سطح پر اموات میں خواتین کے مقابلے مردوں کی تعداد 43 فی صد کے مقابلے میں 57 فی صد زیادہ رہی۔ اس کے علاوہ 82 فی صد اضافی اموات 60 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کی ہوئیں۔

بھارت میں کرونا بحران: ڈاکٹروں کو کیا مشکلات ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:07:02 0:00

عالمی ادارۂ صحت کے سربراہ ٹیڈروس ادہانوم گیبریسس نے کہا ہے کہ یہ چشم کشا اعداد و شمار نہ صرف وبائی امراض کے اثرات کی طرف اشارہ کرتے ہیں بلکہ تمام ممالک کو صحت کے مزید مستحکم نظاموں میں سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق کئی ممالک کے پاس اموات کی نگرانی کی قابلِ اعتماد صلاحیت نہیں ہے اور اس وجہ سے وہ اموات کی اضافی شرح پر کام کرنے کے لیے درکار ڈیٹا تیار نہیں کرپائے۔

ادارے کے مطابق عام طور پر دنیا بھر میں 10 میں سے چھ اموات کا باقاعدہ ریکارڈ نہیں لیا جاتا۔اپنے مرتب کیے گئے اعداد شمار کے متعلق ادارے کا کہنا ہے کہ اس کا تقریباً ڈیڑھ کروڑ کا شمار دنیا کے سرکردہ ماہرین کے ذریعے تیار کیا گیا ہے جنہوں نے تخمینہ لگانے کے لیے ڈیٹا کی کمی کے حل کے لیے ایک طریقہ کار وضع کیا۔

XS
SM
MD
LG