رسائی کے لنکس

پاکستان کے متعلق صدر ٹرمپ کا مؤقف کیوں تبدیل ہوا؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کے دورۂ امریکہ کے بعد پاک امریکہ تعلقات میں ایک بار پھر بہتری کے آثار نظر آ رہے ہیں۔

اس تبدیلی کا ثبوت جمعے کو دیا جانے والا امریکی محکمۂ خارجہ کا بیان ہے کہ "ٹرمپ عمران ملاقات کے بعد اب وقت آگیا ہے کہ آگے بڑھا جائے۔"

اس دورے کے بعد امریکہ نے پاکستان کے زیرِ استعمال ایف۔16 طیاروں کے لیے آلات اور لاجسٹک معاونت مہیا کرنے کی منظوری بھی دے دی ہے جب کہ افغان طالبان نے بھی اسلام آباد کا دورہ کرنے کا اشارہ دیا ہے۔

پاکستان کی حکومت عمران خان کے دورۂ امریکہ کو کامیاب قرار دے رہی ہے۔ لیکن ذرائع ابلاغ اور سفارت کار یہ جاننے کی کوشش میں ہیں کہ آخر اس دورے سے قبل ایسی کون سی تبدیلی آئی تھی کہ امریکی صدر ٹرمپ کا پاکستان سے متعلق مؤقف یکسر تبدیل ہوگیا۔

بعض حلقوں کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ کے مؤقف میں تبدیلی کا مقصد افغانستان سے امریکی فوج کے ممکنہ انخلا میں پاکستان کی مدد حاصل کرنا ہوسکتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ یہ مقصد حاصل ہوجانے کے بعد کیا امریکہ ایک بار پھر تو پاکستان سے متعلق اپنے تعلقات پر نظرِ ثانی نہیں کرلے گا؟

مختلف ممالک میں خدمات سرانجام دینے والے پاکستان کے سابق سفارت کار ظفر ہلالی سمجھتے ہیں کہ پاکستان سے متعلق صدر ٹرمپ کے مؤقف میں تبدیلی کی وجہ صدر ٹرمپ کا امریکی عوام کے ساتھ کیا جانے والا یہ وعدہ ہے کہ وہ جلد افغانستان سے فوج نکال لیں گے۔ ان کے بقول امریکی صدر اس وعدے کو پورا کر کے اگلا صدارتی انتخاب جیتنا چاہتے ہیں۔

پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ شمشاد احمد کا خیال ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں جو سرد مہری تھی، اُسے بالآخر ختم ہونا ہی تھا۔

وہ سمجھتے ہیں کہ دونوں ممالک ماضی میں اتحادی رہے ہیں اور ان کے درمیان تعلقات کا دوبارہ استوار ہونا وقت کی ضرورت ہے۔

افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد کیا ہوگا؟

امریکی فوج کے افغانستان سے ممکنہ انخلا میں پاکستان کے کلیدی کردار سے متعلق سوال کے جواب میں ظفر ہلالی کہتے ہیں کہ اگر امریکہ افغانستان سے نکلتا ہے تو 20 سال پر محیط اس جنگ کا خاتمہ ہوگا، امریکی فوجیوں کی ہلاکتیں بند ہوں گی اور ہر سال امریکہ جو کئی ارب ڈالرز اس جنگ پر خرچ کرتا ہے، وہ سرمایہ بچایا جاسکے گا۔

شمشاد احمد کا کہنا ہے کہ پاکستان کے بغیر افغانستان میں امن مشکل لگتا ہے اور یہ صرف صدر ٹرمپ کی سوچ نہیں ہے بلکہ یہ ہر امریکی صدر کی سوچ رہی ہے۔ ان کے بقول یہ علیحدہ بات ہے کہ چند وجوہات کی وجہ سے یہ سوچ عمل میں نہیں ڈھل سکی۔

کیا عمران خان طالبان کو راضی کر سکتے ہیں؟

افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات شروع کرانے میں عمران خان اور ان کی حکومت کے کردار کے متعلق سوال پر ظفر ہلالی کہتے ہیں کہ اگر امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان، طالبان کو تمام شرائط پر راضی کر سکتا ہے تو ایسا ہونا ممکن نہیں۔

ان کے بقول امریکہ کو پتا ہے کہ اگر کوئی ملک ہے جو طالبان پر اخلاقی دباؤ ڈال سکتا ہے تو وہ پاکستان ہے اور امریکہ اسی کا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔

افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد کی متوقع صورتِ حال پر ظفر ہلالی کا کہنا ہے کہ امریکہ کا پاکستان کے ساتھ فی الحال تو مصلحت کا تعلق بن گیا ہے لیکن امریکہ کے افغانستان سے انخلا کے بعد کیا ہوگا، اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

ان کے بقول 1990 میں افغانستان سے امریکی اور سوویت یونین کی افواج کے نکلنے کے تین مہینے بعد ہی امریکہ نے پاکستان پر پابندیاں لگا دی تھیں۔

امریکہ کی پاکستان سے اچھے تعلقات کی کوششیں وقتی تو نہیں؟

شمشاد احمد کہتے ہیں کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں نشیب و فراز آتے رہے ہیں اور اس تعلق کو ایک مستقل جہت دینے کی ضرورت ہے۔ اس وقت دونوں حکومتوں کا زور اس بات پر ہے کہ اس رشتے کو مضبوط کیسے کیا جائے۔

دونوں ملکوں کے ماہرین اور حکام سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو درپیش معاشی مسائل اور امریکی فوج کے افغانستان سے انخلا کے لیے موجودہ حالات میں پاکستان اور امریکہ ایک دوسرے کی ضرورت ہیں۔ لیکن اگر پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں کچھ زیادہ گرم جوشی آئی تو اس پر چین کو بھی تحفظات ہوسکتے ہیں جو پاکستان میں 60 ارب ڈالرز سے زائد کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔

XS
SM
MD
LG