رسائی کے لنکس

پاکستانی تاجروں کو افغانستان سے بھتے کی کالز میں اضافہ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

دسمبر کی ایک شام افغانستان کے ڈائل کوڈ 93+ سے شروع ہونے والی ایک واٹس ایپ کال نے کراچی شہر کی ایک مضافاتی آبادی میں رہائش پذیر تاجر افضل علی (فرضی نام) اور اس کے اہلِ خانہ کو کئی روز تک پریشان رکھا۔ یہ فون کال کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی مہمند شاخ سے تعلق رکھنے والے ایک رہنما کی تھی۔ جنہوں نے "اللہ کی راہ میں لڑنے والے مجاہدین کی مالی اعانت" کے لیے افضل علی سے 10 لاکھ روپے بھتہ طلب کیا تھا۔

افضل علی کا تعلق بھی پاکستان کے سرحدی ضلع مہمند سے ہے جو کراچی شہر میں 1960 سے لکڑی اور ریئل اسٹیٹ کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ افضل 2011 کے وسط سے اب تک کم ازکم 14 مرتبہ ٹی ٹی پی کو لگ بھگ 85 لاکھ روپے بھتے کے طور پر دے چکے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے افضل نے بتایا کہ ضلع مہمند کے ایک عالمِ دین کے توسط سے واٹس ایپ کالوں پر ٹی ٹی پی کے علاقائی نچلی سطح کے کمانڈروں سے بات چیت کے بعد معاملات پانچ لاکھ روپے پر طے پائے۔

ان کے بقول، ’’اگرمیں یہ پیسے نہ دیتا یا پولیس سے رابطہ کرتا تو ٹی ٹی پی کے اراکین کراچی یا مہمند میں میرے گھروں پربم دھماکہ یا فائرنگ کرتے یا گھر سے باہر مجھ پر یا کسی بیٹے پر حملہ کرتے۔"

افضل علی کی کہانی ملک بھر کے مختلف حصوں، خصوصاً کراچی، پشاور، راولپنڈی اورلاہور میں مقیم ان گنت پختون تاجروں، کاروبار، پراپرٹی ڈیلروں اورٹرانسپورٹروں کی ہے جو 2011 سے خاموشی سے ٹی ٹی پی کو بھتے کی صورت میں ماہانہ کروڑوں روپے ادا کر رہے ہیں۔

افغان طالبان کی واپسی کے اثرات

ٹی ٹی پی کی جانب سے بھتہ وصولی کا یہ سلسلہ گزشتہ 10 برسوں میں کبھی کم اور کبھی بڑھ جاتا ہے مگر افغانستان میں طالبان کے کنٹرول کے بعد ٹی ٹی پی کی جانب سے دہشت گرد حملوں میں اضافے کے علاوہ بھتہ لینے کے واقعات میں بھی اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

گزشتہ برس نومبر اور دسمبر میں کراچی، پشاور، باجوڑ اور راولپنڈی کے پختون تاجروں اورسیاسی رہنماؤں سے وائس آف امریکہ نے بات کی تھی جن کے بقول ٹی ٹی پی کی جانب سے بھتہ وصولی کے لیے فون کالز کا سلسلہ دوبارہ بڑے پیمانے پرشروع ہو چکاہے۔

صوبہ خیبرپختونخوا کے شہر پشاور میں خیبر پختونخوا چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے ایک رہنما کا کہناہے کہ 2011 سے ٹی ٹی پی، منگل باغ کی لشکرِ اسلام سمیت دیگر طالبان گروہوں کی جانب سے بھتہ خوری کی وجہ سے صوبے کے تاجر اورصنعت کار متاثر ہوئے ہیں اور ان کی ایک بڑی تعداد اپنے کاروبار سمیت ملک کے دوسرے شہروں کی جانب منتقل ہوگئی ہے۔

سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر نام نہ شائع کرنے کی شرط پر انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بھتہ خوری کے واقعات 2013 سے لے کر 2017 تک بہت بڑھ گئے تھے اور اس عرصے میں شدت پسند ماہانہ کروڑوں روپے بھتہ جمع کر رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ تاجروں کے ساتھ ساتھ اراکین اسمبلی اور ڈاکٹروں کوبھی بھتے کے لیے فون کالز آتی رہیں اور سکھ کمیونٹی کے ایک تاجر کو بھی بھتے کے لیے دھمکی آمیز فون کال کی گئی۔

ان کے بقول ،بھتے کی رقم کا تقاضا اوسطاً پانچ لاکھ سے دو کروڑ روپے کے درمیان ہوتا ہے جو بات چیت کرنے سے کم بھی ہوسکتا ہے جب کہ انکار پر فائرنگ یا تاجروں کے گھر وں کے قریب چھوٹے دھماکے کر کے یہ رقم دوگنی کر دی جاتی ہے۔

شمالی وزیرستان کے 928+ سے افغانستان کے 93+ فون کوڈ تک

ٹی ٹی پی میں شامل مختلف علاقائی گروہ زیادہ تراپنے ہی علاقے کے مال دارافراد اورتاجروں کو افغانستان اور پاکستان کے فون نمبروں سےرابطہ کرکے پیسوں کامطالبہ کرتے ہیں۔

ڈیرہ اسماعیل خان اور کراچی میں سڑکوں اورعمارات کی تعمیر میں استعمال ہونے والی ہیوی مشینری کے کاروبار سے وابستہ علی محسود (فرضی نام) نے بتایا کہ کالعدم ٹی ٹی پی نے جنوبی وزیرستان میں محسود علاقوں کی تنظیم کو قبائلی سطح پرتقسیم کرکےنظم تشکیل دیا ہے اور انہیں مقامی امیر نے 2011 میں ٹیلی فون کرکے پیسوں کا مطالبہ کیا تھا۔

وائس آف امریکہ کو تفصیلات بتاتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ فون کالز کے دوران شدت پسند رقوم کی وصولی کو شرعی قرار دینے کے لیے اسلامی تاریخ اور قرآن و حدیث کے حوالے بھی دیتے ہیں کہ کب کس اسلامی شخصیات نے کس موقع پر جہاد کی مالی معاونت کی یا 'مجاہدین' کی بیواؤں اوریتیم بچوں کی مدد کی۔

پاکستان میں کالعدم تحریکِ طالبان کے حملوں میں دوبارہ تیزی
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:22 0:00

انہوں نے کہا کہ جون 2014 تک ٹی ٹی پی کے شدت پسند شمالی وزیرستان کے قصبے میران شاہ میں واقع اپنے دفاتر کے لینڈلائنز فون سے 928+ کے ٹیلی فون کوڈ والے نمبروں سے بھتوں کے لیے فون کرتے تھے۔

البتہ شمالی وزیرستان میں شدت پسند تنظیموں کے خلاف 'آپریشن ضربِ عضب' شروع ہونے کے بعد جب کالعدم ٹی ٹی پی کے شدت پسند پڑوسی ملک افغانستان کےصوبوں کنڑ، ننگرہار اورخوست منتقل ہوئے تو افغانستان سے اب یہ فون کال 93+ کوڈ سے آنا شروع ہو گئیں۔

بھتہ وصولی کیسے کی جاتی ہے ؟

پشاور میں مقیم ایک سویلین انٹیلی جنس ایجنسی کے ایک افسر نے بتایا کہ ٹی ٹی پی بھتہ وصولی کے لیے ایک منظم نیٹ ورک کی صورت میں کام کرتی ہے۔

ذرائع وابلاغ سے بات چیت کرنے کی ممانعت کی وجہ سے نام شائع نہ کرنے کی شرط پرانہوں نے بتایاکہ تاجر کی دولت و املاک اور خاندان کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے مقامی مجرموں کو کمیشن پراستعمال کیا جاتاہے جب کہ فون کال افغانستان میں بیٹھے تنظیم کے ذمہ دار افراد کرتے ہیں۔

ان کے بقول"ٹی ٹی پی بھتے کے لیے رقم کامطالبہ کرنے سے پہلے اس بات کی تحقیق کرتی ہے کہ تاجر کے کاروبار کی نوعیت ومالیت کیا ہے، ان کی رہائش اورکاروبار کہاں کہاں واقع ہے اوراس کے بچے کن اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔"

انہوں نے بتایا کہ بھتہ وصول کرنے کے کام کے لیے مخصوص ٹیمیں تشکیل دی جاتی ہیں جب کہ بھتہ نہ دینے پرفائرنگ کرکے ہلاک یا زخمی یا صرف ڈرانے کے لیے ایک علیحدہ ٹیم ہوتی ہے۔

ان کا کہناہے کہ بھتہ نہ دینے اورپولیس سے رابطہ کرنے کی صورت میں انتہائی سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ یہ محض دھمکیاں نہیں ہوتیں بلکہ باقاعدہ گھر کے باہربم دھماکہ یا فائرنگ کرکے تاجروں کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔

جنوری کے اوائل میں صوبہ پنجاب کے شہر راولپنڈی کے ایک نسبتاً محفوظ سمجھنے جانے والے علاقے میں ضلع مہمند کے ایک تاجر نے جب کالعدم ٹی ٹی پی کو بھتے کی رقم ادا کرنے میں سستی دکھائی تو شدت پسند گروہ کے دو اراکین نے رات کو اس کے گھر کے مرکزی دروازے پر فائرنگ کی۔ وائس آف امریکہ نے تاجر کے گھر کے باہرلگےسی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج بھی دیکھی ہے۔

شدت پسندی کے امور پرلکھنے والے پشاور کے صحافی لحاظ علی کے مطابق بھتے کے لیےشدت پسند گروہ اب ٹیلی گرام نامی سیکیورڈ ایپ کا استعمال کرتے ہیں اور ہنڈی کے ذریعے پیسے وصول کیے جاتے ہیں۔

انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایاکہ ماضی کی نسبت شدت پسندوں کی جانب سے بھتہ وصولی کے عمل میں تشدد کا عنصر کم ہوا ہے لیکن فون کالز کی تعداد کافی بڑھی ہے۔

'داعش بھی پیسے مانگ رہی ہے'

دولتِ اسلامیہ یا داعش کے نام سے بھی شدت پسند صوبہ خیبرپختونخوا کے تاجروں سے بھتے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

پشاور کے انٹِیلی جنس اہلکار کے مطابق " سابق قبائلی اضلاع باجوڑ اور اورکزئی سے تعلق رکھنے والے شدت پسندوں کی بڑی تعداد ٹی ٹی پی چھوڑ کر داعش میں شامل ہوئی ہے جس کی وجہ سےاکثر باجوڑ، کوہاٹ اورپشاور کے تاجروں کو داعش کے نام پربھتے کے فون آرہے ہیں۔

پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے ادارے بھتہ خوری کے اعداد و شمار باقاعدہ مرتب نہیں کرتے۔ مگر وائس آف امریکہ کی جانب سے تاجروں اور سیکیورٹی افسران سے بات چیت سے معلوم ہوا ہےکہ بھتے کےکیسز رپورٹ ہونے کی شرح انتہائی کم ہے جس کی اہم وجہ پولیس کو 'بد عنوان اور غیر مؤثر' سمجها جانا ہے۔

'اگر ٹی ٹی پی سے مذاکرات ہی کرنے تھے تو آپریشن کیوں کیے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:18 0:00

افضل علی نے بتایاکہ جب ٹی ٹی پی نے 2011 میں بھتے کے لیے فون کالز کرنا شروع کیں تو کراچی اورپشاور میں ان کے قبیلے کے چند تاجروں نے پولیس اورقانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں سے رابطہ کیا۔

ان کے بقول سیکیورٹی فورسز سے رابطہ کرنے کی خبر ٹی ٹی پی کے علم میں آئی تو ان کے جان پہنچا والے کئی افراد پر حملے ہوئے اور کئی جان کی بازی بھی ہار گئے۔

افضل نے شکوہ کیا کہ پختون تاجر اپنی اوراپنے اہل خانہ کی جان بچانےکے لیے بھتہ دینے پرمجبور ہیں اور دوسری جانب سیکیورٹی ادارے رقوم کی ادائیگی پر الٹا 'ٹیرر فنانسنگ' کے نام پر تاجروں کو ہراساں کرتے ہیں۔

کالعدم ٹی ٹی پی کے امیر مفتی نور ولی نے 2018 میں اپنی تحریرکردہ کتاب 'انقلابِ محسود' میں اس بات کی تصدیق کی تھی کہ ٹی ٹی پی کی ذیلی تنظیمیں ماضی میں اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے بھتہ خوری جیسی کارروائیوں میں ملوث رہی ہیں۔

البتہ کالعدم ٹی ٹی پی نے کئی مواقع پر بھتہ خوری میں ملوث ہونےسے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے بیانات میں اس عمل کو غیرشرعی قراد دیا ہے۔ ٹی ٹی پی نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ تنظیم کی مرکزی قیادت نے شکایات موصول ہونے پر کچھ لوگوں کو سزائیں بھی دلوائی ہیں۔

بھتہ خوری کی روک تھام کے لیے حکومتی کوششیں

سیکیورٹی افسران کہتے ہیں کہ سرحد پار سے کالعدم ٹی ٹی پی کی بھتہ خوری کی کالز کا مسئلہ سنگین نوعیت کا ہے اورافغانستان میں اپنے ٹھکانوں میں رہائش پذیر ٹی ٹی پی کے شدت پسندوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرنا ان کے بس کی بات نہیں۔

پشاور کے انٹیلی جنس افسر کے مطابق بھتہ خوری کے عمل میں ٹی ٹی پی کی مدد کرنے والے ان مقامی مجرموں کو گرفتار کیا جارہاہے جو ٹی ٹی پی کے لیے تاجروں کے بارے میں معلومات فراہم کرنے اور ان کی طرف سے رقم جمع کرنے کا کام سرانجام دیتے ہیں۔

سرحد پار سے بھتہ خوری کی انسداد کے لیے ماضی میں پاکستانی حکومت نےکابل میں اشرف غنی کی حکومت سے رابطہ کیا تھا۔ مگر اس کے باوجود پاکستان کے سرحدی صوبوں کنڑ، ننگرہار اورخوست سے تاجروں کو بھتے کی کالزآنے کا سلسلہ نہ رک سکا۔

افغان طالبان بھی کارروائی کرنے سے گریزاں

طالبان کے 15 اگست کو افغانستان پر کنٹرول کے بعد اسلام آباد کو یہ امیدتھی کہ کابل کے نئے حکمران کنڑ، ننگرہار اورخوست سے ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں کا صفایا کر دیں گے۔ مگرپانچ ماہ سے زائد وقت گزرجانے کے باوجود طالبان حکام ٹی ٹی پی کےخلاف کارروائی سے ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں۔

البتہ افغان طالبان نے اپنے اہم جز حقانی نیٹ ورک کے اہم رہنماؤں کی موجودگی میں پاکستانی حکومت اور کالعدم ٹی ٹی پی کوگزشتہ برس مذاکرات کی میز پر لانے اور نو نومبر سے نو دسمبر تک ایک ماہ کی جنگ بندی کرا کر اپنی ذمے داری پوری کر دی تھی۔

ٹی ٹی پی نے دس دسمبر کو مذاکرات کے خاتمے کا اعلان کرتے ہی دہشت گردی کی کارروائیاں دوباره شروع کر دی ہیں۔

  • 16x9 Image

    ضیاء الرحمٰن خان

    ضیاء الرحمٰن کراچی میں مقیم ایک انویسٹیگیٹو صحافی اور محقق ہیں جو پاکستان کے سیکیورٹی معاملات، سیاست، مذہب اور انسانی حقوق کے موضوعات پر لکھتے ہیں۔  

XS
SM
MD
LG