رسائی کے لنکس

افغانستان میں عوام طالبان کے خلاف مسلح کیوں ہو رہے ہیں؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

"میں مزار شریف کا رہائشی ہوں۔ میری یہاں دُکان ہے۔ جب صوبہ بلخ کے چند اضلاع پر طالبان کا قبضہ ہوا تو مجھے فکر لاحق ہوئی کہ کہیں اس کے بعد طالبان مزار شریف کا رخ نہ کر لیں۔"

یہ کہنا ہے ایمل کا، جو افغانستان کے شمال میں طالبان کی بڑھتی ہوئی پیش قدمی سے پریشان ہیں۔

افغانستان کے مختلف علاقوں میں دو دہائیوں بعد طالبان کے قدموں کی چاپ سنائی دینے پر دارالحکومت کابل سمیت دیگر شہروں میں عوام خوف کا شکار ہیں۔

طالبان ملک کے ایک تہائی حصے پر قابض ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ اتنے بڑے علاقے کا مبینہ کنٹرول حاصل کرنے کے بعد طالبان کے خوف کا شکار زیادہ تر لوگ ذرائع ابلاغ سے بات کرنے سے بھی گریز کر رہے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ایمل نے بتایا کہ طالبان کی پیش رفت کی خبروں کے بعد انہوں نے اپنے چند دوستوں کے ساتھ مستقبل کی حکمتِ عملی مرتب کرنے کے لیے مشورہ کیا۔

ایمل کے مطابق انہیں افغان سیکیورٹی فورسز پر فخر ہے۔ وہ اپنے دفاع کے لیے لڑتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر وہ اسی ملک کے شہری ہیں کہیں باہر سے نہیں آئے۔

’طالبان اقتدار میں آئے تو ہر قسم کی آزادی چھن جائے گی‘

طالبان دعویٰ کرتے ہیں کہ گزشتہ دو ماہ کے دوران انہوں نے افغانستان کے شمال مشرقی صوبوں میں 100 سے زائد اضلاع کا مکمل کنٹرول حاصل کیا ہے۔ ایمل کے مطابق ان کو اسی خوف نے وطن کے دفاع کے لیے اپنی خدمات رضاکارانہ طور پر پیش کرنے پر مجبور کیا ہے۔

اب وہ دکان داری کو خیر باد کہہ کر افغان سیکیورٹی فورسز کے شانہ بشانہ اپنے علاقے کے دفاع کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

غیر ملکی افواج کا انخلا، افغانستان میں خانہ جنگی کا خدشہ
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:46 0:00

ایمل کہتے ہیں کہ انہوں نے سیکیورٹی فورسز کے ساتھ مل کر طالبان کے ایک بڑے حملے کو پسپا بھی کیا ہے۔ اور انہیں علاقہ سے بھاگنے پر مجبور کیا ہے۔

طالبان کے قبضے کے خوف کے سائے تلے اکیلے ایمل نہیں جی رہے۔ افغانستان کے دیگر علاقوں میں بھی لوگ طالبان کے خلاف مسلح ہو کر سیکیورٹی فورسز کے ساتھ کھڑے ہو رہے ہیں۔

ایمل کا کہنا ہے کہ وہ طالبان کے عزائم سے بخوبی واقف ہیں۔ اور وہ سمجھتے ہیں کہ اگر طالبان دوبارہ اقتدار پر قابض ہو جاتے ہیں تو ان کی ہر قسم کی آزادی چھن جائے گی۔

خواتین بھی مسلح افراد میں شامل

اصلیہ احمد زئی گزشتہ چھ سال سے صوبۂ فریاب میں صحافت کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ تمام علاقے جہاں طالبان قابض ہو چکے ہیں وہاں اب آہستہ آہستہ زندگی معمول پر آنا شروع ہو گئی ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لوگوں کو ہمیشہ طالبان کے حملوں کا خوف رہتا ہے جن علاقوں سے حکومتی فورسز کا انخلا ہو چکا ہے وہاں پر وقتی طور پر امن و امان کی صورتِ حال بہتر ہے۔ کیوں کہ وہاں اب طالبان حملے نہیں کرتے ہیں۔

اصلیہ احمد زئی کا مزید کہنا ہے کہ بہت سے ایسے علاقے بھی ہیں جہاں طالبان کے حملوں کے خوف کے پیشِ نظر خواتین سمیت لوگ اسلحہ لیے سیکیورٹی فورسز کی حوصلہ افزائی کے لیے گھروں سے نکلے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ افغانستان کی نئی نسل کو ڈر ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ طالبان دوبارہ اقتدار پر قابض ہو جائیں اور ایک مرتبہ پھر انہیں تعلیمی اداروں اور دفاتر میں روزگار سے روکا جائے۔

اصلیہ کا مزید کہنا تھا کہ حالات کی نزاکت کے باعث وہ خود بھی گزشتہ کئی ماہ سے گھر سے کام کر رہی ہیں۔

مستقبل میں حالات مزید خراب ہونے کا اندیشہ

افغانستان میں بڑے پیمانے پر مقامی افراد کا طالبان کے خلاف ہتھیار اٹھانے کے عمل کو جہاں ایک جانب سراہا جا رہا ہے تو دوسری جانب بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اس کے ذریعے مستقبل میں سیکیورٹی کے حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔

تاہم کابل میں مقیم سیکیورٹی امور کے ماہر حمد اللہ ہمدرد، اس تاثر سے اختلاف کرتے ہیں۔

افغانستان: 'اربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود غربت عروج پر ہے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:25 0:00

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کے عوام نے جب طالبان کی شمال میں بڑھتی ہوئی پیش رفت کو دیکھا تو وہ اپنی فورسز کے ساتھ بطور یکجہتی کھڑے ہوئے تاکہ مزید علاقے طالبان کے ہاتھوں میں نہ جائیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے حمد اللہ ہمدرد نے مزید بتایا کہ افغانستان کے عوام کے لیے ملک کے بیشتر حصوں میں افغان فورسز کا بغیر لڑے علاقے خالی کرنے کا عمل باعثِ تشویش تھا۔

’افغان فورسز جامع حکمتِ عملی مرتب کر چکی ہے‘

ان کے مطابق اس کے بعد افغانستان کے مختلف حصوں میں مقامی افراد، بشمول خواتین نے ہتھیار اٹھا کر طالبان کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کیا۔ افغان خواتین نے اپنے اس عمل کے ذریعے عالمی برادری پر یہ واضح کیا کہ افغانستان کے عوام طالبان کی حکومت ہرگز نہیں چاہتے۔

عام شہریوں کے مسلح ہونے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی ملک میں جب سول ملیشیا یا عسکری گروہ بنتے ہیں تو بعد میں اس کے ذریعے ناجائز کام بھی کیے جاتے ہیں۔ تاہم یہ عسکری گروہ نہیں ہیں بلکہ اسے عوام کا سیکیورٹی فورسز کی حوصلہ افزائی کرنا کہا جا سکتا ہے جنہیں وزارتِ دفاع کا مکمل کنٹرول ہے۔

حمد اللہ ہمدرد کا مزید کہنا تھا کہ اب تک طالبان افغان فورسز کے ساتھ بغیر لڑے 100 سے زائد اضلاع کا کنٹرول حاصل کر چکے ہیں۔ البتہ افغان فورسز اب جامع حکمتِ عملی مرتب کر چکی ہے۔ صوبہ خوست، پکتیکا اور پکتیا کے گورنر تبدیل ہو چکے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ گورنروں کی تبدیلی کے بعد کہا جا رہا ہے کہ بہت جلد طالبان کے ٹھکانوں پر زمینی اور فضائی حملے شروع کیے جائیں گے۔

سیکیورٹی امور کے ماہر نے عام عوام کے طالبان کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی مختلف وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے شمال میں 90 کی دہائی میں لوگوں نے طالبان کے مظالم دیکھے ہیں۔ ایسے میں وہ کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ طالبان ایک مرتبہ پھر ان پر مسلط ہوں۔

’عوام نہیں چاہتے کہ موجودہ نظام کا خاتمہ ہو‘

ان کے مطابق دوسری بڑی وجہ حکومت کے قائم کردہ اسکول، اسپتال، امن و امان کی صورتِ حال کے ساتھ ساتھ ترقیاتی کام بھی ہیں۔ جب کہ عوام نے طالبان کی صرف خون ریزی ہی دیکھی ہے۔

حمد اللہ ہمدرد تیسری بڑی وجہ روس کے انخلا کے بعد کی صورتِ حال کو قرار دیتے ہیں۔

ان کے مطابق افغانستان سے روس کے انخلا کے بعد ڈاکٹر نجیب نے مجاہدین کے تمام دھڑوں کو صلح کی پیشکش کی تھی۔ البتہ ان کی اس پیشکش کا کسی نے ساتھ نہیں دیا تھا جس کے بعد پورا افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہو گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ تجربات کو دیکھتے ہوئے افغان عوام نہیں چاہتے کہ موجودہ نظام کا خاتمہ ہو۔ بلکہ وہ اسی نظام کا تسلسل چاہتے ہیں۔ تاکہ ملک کو مزید انتشار اور خانہ جنگی سے بچایا جائے۔

یہ بھی پڑھیے

XS
SM
MD
LG