رسائی کے لنکس

کراچی میں طالبان زور پکڑ گئے، دہشت گردی بڑھ گئی


تجزیہ کار کہتے ہیں کہ پہلے کراچی سے صرف پیسہ درپردہ ذرائع سے علاقہ غیر یا جنوبی وزیرستان جاتا تھا۔ مگر ڈورن حملوں اور عسکری آپریشن کے سبب، ’وار لارڈز‘ یا جنگجو سردار پہاڑوں سے اتر کر کراچی آبسے، جس سے انہیں تو بیک وقت کئی فائدے ہوئے، لیکن، ’شہر کا امن تباہ ہوگیا‘

کراچی میں مسلسل ہونے والے دھماکے اور دہشت گردی کی دیگر وارداتیں اس جانب واضح اشارہ ہیں کہ کراچی میں طالبان روز پکڑ گئے ہیں۔ زمینی حقائق پر نظر ڈالیں تو کئی سچائیاں سامنے آتی ہیں۔ دھماکوں کا یہ تسلسل ایک آدھ سال پہلے تک صوبہ خیبر پختونخواہ تک محدود تھا۔ لیکن، اب یہ کراچی تک پھیل گیا ہے۔اسی وجہ سے یہاں وارداتیں بڑھ رہی ہیں۔

سیاسی تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ پہلے کراچی سے صرف پیسہ درپردہ ذرائع سے علاقہ غیر یا جنوبی وزیرستان وغیرہ جاتا تھا۔ مگر ڈورن حملوں اور عسکری آپریشن کے سبب ’وار لارڈز‘ یا جنگجو سردار پہاڑوں سے اتر کر کراچی آبسے، جس سے انہیں تو بیک وقت کئی فائدے ہوئے لیکن شہر کا امن تباہ ہوگیا۔

کراچی ہی کیوں؟
جنگجو سرداروں نے کراچی کا چناوٴ کیوں کیا اس سلسلے میں آزاد خیال مبصرین جو اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتے، ان کا کہنا ہے ’کراچی میں ہر رنگ، ہر نسل، کثیرالمذاہب اور ملک کے دور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ رہتے ہیں۔ ان میں طالبان ہی کیا کسی کو بھی اپنی شناخت چھپانا کوئی مسئلہ نہیں۔

متعد دتجزیہ نگاروں کا ’وائس آف امریکہ‘ سے تبادلہ خیال میں کہنا تھا کہ کراچی میں آنے کا ایک بڑا فائدہ ڈرون حملوں کے خوف سے آزادی بھی ہے۔ پھر کراچی میں عسکری آپریشن کا بھی فوری طور پر کوئی خطرہ نہیں۔ اس شہر کی بانہیں گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ وسیع ہوچکی ہیں یہاں تک کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنے کے لئے گھنٹوں کا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ پھر ایک کونے والے کیا کررہے ہیں، دوسرے کونے والوں کو اس کی بھنک تک نہیں لگتی۔

ملکی اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ کی خبریں
پاکستان کے سب سے بڑے روزنامے ’جنگ ‘میں کچھ ہی ہفتے پہلے برطانوی میڈیا کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی اس میں بھی یہ نشاندہی کی گئی تھی کہ ’کالعدم تحریک طالبان کو وزیرستان سے کراچی تک کا سفر راس آگیاہے۔ منگھوپیر، اورنگی، موچکو، سہراب گوٹھ، افغان بستی، لانڈھی اور بلدیہ ٹاوٴن کے پہاڑی علاقے ان کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں‘۔

اسی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پی این ایس مہران، عبد اللہ شاہ غازی کا مزار، سی آئی ڈی آفس، ایس پی چوہدری اسلم کی رہائش گاہ اور سی ویو پرخود کش حملے کرکے طالبان نے موجودگی کا احساس دیا ہے۔

امریکہ کے مؤقر اخبار ’وال اسٹریٹ جرنل‘ نے بھی اسی قسم کی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ طالبان کراچی میں ہونے والی متعدد وارداتوں کی ذمے داری قبول کر چکی ہے۔ پھر اس میں کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا کہ کراچی میں طالبان خاصے سرگرم ہوگئے ہیں۔

طالبان، کامیابی کی وجوہات
’وی او اے‘ کو متعدد لوگوں سے موصولہ رسپورنس سے اندازا ہوا کہ طالبان کو کراچی آنے اور آسانی سے ایڈجسٹ ہوجانے کی ایک وجہ تو یہاں کی آبادی کا کثیر النسل ہونا ہے۔ البتہ، انہیں کچھ مقامی سیاسی جماعتوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑسکتا تھا اور یہی وہ جماعتیں بھی تھیں ہیں جو اُن کے مخصوص نظرئے سے اتفاق نہیں کرتی تھیں۔ ان کے خلاف طالبان نے یہ سیاسی حکمت عملی اختیار کی کہ انہیں ٹارگٹ کلنگ، فرقہ وارانہ فسادات، سیاسی مخالفین سے نظریاتی اختلافات اور بھتہ خوری جیسے مسائل میں الجھا دیا۔

ایک زیرک سیاسی کارکن کے بقول ’ٹارگٹڈ آپریشن نے مقامی سیاسی جماعتوں کے حوالے سے جلی پر تیل کا کام کیا۔ ایک جانب ان جماعتوں کے کارکنوں کے خلاف پکڑ دھکڑ شروع ہوگئی تو دوسری جانب ٹارگٹ کلنگ کے واقعات بڑھ گئے۔ ان جماعتوں کو دوسرافرنٹ دیکھنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ لہذا، پولیس اور دیگر سیکورٹی فورسز کو مطلوب جرائم پیشہ افراد یا عرف عام میں کہیں تو دہشت گردوں کو کراچی آنے سے روکنے یا ان پر نظر رکھنے کا موقع ہی نہیں ملا، ورنہ شروع میں کچھ جماعتوں نے ان کی آمد پرحکومت کو مطلع بھی کیا تھا۔

سندھ کی ایک قوم پرست جماعت سندھ ترقی پسند پارٹی کے رہنما ڈاکٹر محمد قادر مگسی نے وی او اے کو بتایا کہ اندرون سندھ اب بھی بہت تیزی سے غیر سندھی اور دور افتادہ علاقوں کے رہنے والوں کی آمد جاری ہے۔ سندھ کے بہت سارے ایسے علاقے ہیں جہاں ان کا آنا بظاہر کسی مقصد کا نہیں۔ لیکن، یہ شکوک و شبہات کو جنم دے رہا ہے۔ ڈاکٹر مگسی کا کہنا ہے کہ وہ حکومت اور متعلق افراد کو اس غیر قانونی آمد سے متعلق کئی بار مطلع کرچکے ہیں۔ لیکن، کسی نے اس طرف توجہ نہیں دی۔

ڈاکٹر مگسی کے مطابق اس غیر ضروری آمد کے اچھے نتائج کی توقع کرنا عبث ہے۔

انگریزی اخبار ’ٹری بیون‘ اپنی ایک ایسی ہی رپورٹ میں لکھتا ہے کہ ’بدقسمتی سے کراچی میں ایسی علاقے بھی وجود میں آگئے ہیں، جہاں پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے داخل تک نہیں ہوسکتے۔ جبکہ، دیگر سیاسی جماعتوں کے لئے تو یہ علاقے سالوں سے ’نوگوایریاز ‘ہیں‘۔

اخبار نے ایسے 25نوگوایریاز کی نشاندہی کی ہے۔ ان علاقوں کو زبان و بیان کی بنیاد پر تقسیم کیا گیا ہے۔
XS
SM
MD
LG