رسائی کے لنکس

شیکسپیئر کے اسٹیج ڈرامے: خواتین کے کردار بھی مرد کیوں نبھاتے رہے؟


ڈرامہ 'ہیملٹ' کے شائقین (فائل فوٹو)
ڈرامہ 'ہیملٹ' کے شائقین (فائل فوٹو)

انگریزی ادب کی تاریخ برطانوی ادیب اور شاعر ولیم شیکسپیئر کے بغیر ادھوری ہے۔ مگر کیا آپ کو پتا ہے کہ ولیم شیکسپیئر کی زندگی میں ان کے ڈراموں میں کبھی کوئی خاتون اسٹیج پر اداکاری کرتی ہوئی نظر نہیں آئی اور ان اسٹیج پلیز کے خواتین کردار صرف مرد ہی نبھایا کرتے تھے؟

شیکسپیئر کے معروف پلے اوتھیلو کی محبت کرنے والی وفادار بیوی ڈیسڈیمونہ کا کردار پہلی بار ایک خاتون نے اس اسٹیج ڈرامے کے لکھے جانے کے 60 سال بعد 1660 میں نبھایا۔

شیکسپیئر کے ڈرامے لکھے جانے کا وقت (1592-1613) برطانیہ میں الزبتھ دور کے طور پر جانا جاتا ہے جو کہ جدید اسٹیج ڈراموں کا ابتدائی دور تھا اور اس دور میں خواتین کے تمام کردار نوجوان مرد اور لڑکے ہی ادا کیا کرتے تھے۔

سترہویں صدی سے تعلق رکھنے والے سرکاری ملازم سیمیول پیپیز اپنی ڈائری کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ ان کی ڈائری سترہویں صدی کے وسط میں تبدیل ہوتے برطانیہ کا احوال بتانے میں تاریخی حیثیت رکھتی ہے۔

سیموئل پیپیز کی اسی ڈائری سے پتا لگتا ہے کہ جب 1660 میں اسٹیج پر پہلی خاتون اسٹیج اداکارہ مارگریٹ ہیوز ڈیسڈیمونہ کا کردار نبھاتی نظر آئیں تو یہ عوام کے لیے حیرت انگیز تھا۔ پیپیز نے اپنی ڈائری میں یہ تاریخی لمحہ ریکارڈ کرتے ہوئے لکھا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں پہلی بار کسی عورت کو اسٹیج پر پرفارم کرتے ہوئے دیکھا۔

یہ سوال اکثر لوگوں کو پریشان کرتا ہے کہ سترہویں صدی میں جب دنیا کے دوسرے خطوں میں خواتین اداکاری کرتی تھیں تو پھر برطانیہ میں کیوں نہیں؟

اس کے جواب میں میں کولوراڈو اسٹیٹس یونیورسٹی میں انگریزی زبان اور برطانوی ادب کی پروفیسر الزبتھ اسٹائنوے کہتی ہیں کہ گو کہ اس زمانے میں برطانیہ میں خواتین پر اسٹیج پر کام کرنے کی کوئی پابندی نہیں تھی مگر اداکاری بالخصوص اسٹیج پر اداکاری کو خواتین کے لیے معتبر نہیں سمجھا جاتا تھا۔

پرفیسر اسٹائنوے کے مطابق یہ حیرت انگیز ہے کیونکہ اس زمانے میں نہ صرف دنیا کے دوسرے خطوں میں خواتین اسٹیج پر پرفارم کرتی تھیں بلکہ خود برطانیہ میں خواتین امراء کی محفلوں میں آرٹ کی ایک صنف "ماسک" پرفارم کیا کرتی تھیں۔ اس پرفارمنس میں ماسک پہنے اداکار موسیقی پر رقص کرتے نظر آتے۔

اس کے علاوہ بھی ملکہ برطانیہ کے لیے مختصر ڈرامے پرفارم کیے جاتے تھے جن میں خواتین اداکارائیں کام کرتی تھیں۔جیسا کہ پروفیسر اسٹائنوے نے کہا کہ خواتین اداکاراؤں پر کوئی پابندی نہیں تھی مگر اس کے باوجود برطانوی بادشاہ چارلس دوئم نے، جو کہ خود تھیٹر کے دلدادہ تھے، ایک سرکاری اعلامیے کے ذریعے خواتین کو اسٹیج پر اداکاری کی اجازت بھی دی۔ اس کے باوجود خواتین کی اسٹیج پر اداکاری کو آنے والے کئی سالوں تک معیوب سمجھا جاتا رہا۔

الزبتھ اسٹائنوے اس کی وجہ راسخ العقیدہ ادیب ولیم پرن کے الفاظ سے اخذ کرتی ہیں۔ پرن نے اس زمانے میں مقبول ہوتے اسٹیج ڈراموں کو فحش، جاہلانہ، خدا سے دور کرنے والے اور معاشرے کے لیے نقصان دہ بد عنوانی قرار دیا تھا۔

اس دور کے تھیٹر ،مخالفین کے مطابق، کیونکہ یہ ڈرامے لوگوں کو ایسی خوشی فراہم کرتے تھے جو انہیں خدا سے دور کرتی تھی اور جسے وہ چرچ جانے پر فوقیت دیتے تھے اس لیے یہ کسی بد کرداری سے کم حیثیت نہیں رکھتی تھی۔ اسی لیے اسے خاص طور پر خواتین کے کام کرنے کے لیے اور اس سے پیسہ بنانے کے لیے معیوب سمجھا جاتا تھا۔

کچھ لکھاریوں کی اس بارے میں مختلف آراء رہیں۔ سولہویں صدی کے اسٹیج ڈرامہ نگار تھامس نیش کے نزدیک برطانیہ کی خواتین یورپ میں اسٹیج پر کام کرنے والی اداکاراؤں کی طرح فحش مسخرہ نہیں تھیں۔

گو کہ سولہویں اور سترہویں صدی کے کئی مرد ادیب یوں خواتین کے لباس پہن کر پرفارم کرنے کو اچھا نہیں سمجھتے تھے مگر ان کے لیے یہ بہرحال اس سے بہتر ہی تھا کہ خود خواتین اسٹیج پر جلوہ گر ہو کر اداکاری کریں۔

شیکسپیئر کی زندگی میں کبھی خواتین اسٹیج پر اداکاری کرتی تو نظر نہیں آئیں مگر وہ تھیٹر سے منسلک کاسٹیوم سازی، ٹکٹ اور کھانے پینے کی اشیاء بیچنے کا کام ضرور کرتی رہی تھیں بلکہ کئی خواتین تھیٹر مالکان بھی تھیں۔

پھر شیکسپیئر کے اسٹیج ڈراموں پر ایک ایسا وقت بھی آیا جب خواتین نہ صرف خواتین کرداروں میں نظر آئیں بلکہ مردوں کے کردار نبھاتے بھی۔

1899 میں سارہ برن ہارٹ وہ اداکارہ تھیں جنہوں نے ہیملٹ کا مرکزی کردار نبھایا۔ جیسیکا ولیمز نے ایتھیلو میں اوتھیلو کا کردار کیا۔ دو سو سال کے عرصے میں برطانوی خواتین نے جنسیت، شناخت اور پرفارمنس کے معاملے میں تاریخ ہی بدل کر رکھ دی۔

(اس آرٹیکل کا مواد خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے غیر منافع بخش میڈیا اداروں کی مشترکہ کوشش 'دا کونورزیشن' سے لیا ہے)

XS
SM
MD
LG