رسائی کے لنکس

کیا عمران خان اور نواز شریف الیکشن لڑ سکیں گے؟


پاکستان کے دو سابق وزرائے اعظم نواز شریف اور عمران خان نے آئندہ عام انتخابات میں ملک کے مختلف حلقوں سے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ دونوں رہنماؤں کے لیے الیکشن لڑنے کی راہ میں اب بھی رکاوٹیں برقرار ہیں۔

عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں سزا یافتہ ہونے کے سبب اور نواز شریف کو سپریم کورٹ کی جانب سے تاحیات نااہلی کے فیصلے کی وجہ سے انتخابات میں حصہ لینے میں قانونی مشکلات کا سامنا ہے۔

عمران خان نے میانوالی، لاہور اور اسلام آباد جب کہ نواز شریف نے لاہور اور مانسہرہ سے الیکشن لڑنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ سابق وزرائے اعظم نواز شریف اور عمران خان کاغذات نامزدگی تو جمع کروا سکتے ہیں تاہم سزا یافتہ اور نااہل قرار دیے جانے کے سبب کاغذات کی منظوری کا معاملہ عدالت کے پاس ہی جائے گا۔

عمران خان کے وکلا نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی سزا کی معطلی کی درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کر رکھی تھی جسے جمعرات کو مسترد کر دیا گیا جس کے بعد پی ٹی آئی نے عمران خان کی سزا معطلی کی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کرنے کا اعلان کیا ہے۔

عمران خان کے وکیل بابر اعوان نے وائس آف امریکہ کو انٹرویو میں کہا تھا کہ پی ٹی آئی کے بانی سربراہ انتخابات میں حصہ لیں گے اور اس ضمن میں ان کی سزا معطلی کے لیے عدالت سے رجوع کر رکھا ہے۔

دو جنوری کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا سات رکنی لارجر بینچ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت ارکانِ پارلیمنٹ کی تاحیات نااہلی کیس کی سماعت کرے گا۔

یاد رہے کہ سابقہ حکومت نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کی تھی جس کے بعد آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کو پانچ سال کر دیا گیا ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے بدھ کو اعلان کیا تھا کہ نواز شریف وزیرِ اعظم کے امیدوار ہیں اور سابق وزیرِ اعظم کی انتخابات میں شرکت کی قانونی مشکلات دور کر لی جائیں گی۔

'عمران خان کے الیکشن لڑنے کے لیے سزا معطلی ضروری ہے'

آئینی امور کے ماہر اور سابق چیئرمین سینیٹ وسیم سجاد کہتے ہیں کہ اگر اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کی سزا معطل کردی تو وہ جیل میں ہونے کے باوجود انتخابات میں حصہ لے سکیں گے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اگر عدالت سزا معطل نہیں کرتی تو یہ سابق وزیرِ اعظم کی الیکشن لڑنے کی راہ میں ایک رکاوٹ ہو گی۔

سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کہتے ہیں کہ انتخابات میں حصہ لینے کے لیے عمران خان اور نواز شریف دونوں کو قانونی مراحل طے کرنا ہوں گے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 63 ون جی میں لکھا ہے کہ کوئی بھی سزا یافتہ شخص الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتا ہے اور عمران خان سزا یافتہ ہیں۔

یاد رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے انتخابی شیڈول جاری کرنے کے بعد اُمیدواروں کی جانب سے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کا سلسلہ جاری ہے۔

'نواز شریف کو تاحیات نااہلی کا مسئلہ درپیش ہے'

وسیم سجاد کہتے ہیں کہ اگرچہ نواز شریف اپنے تمام مقدمات سے بری ہو چکے ہیں۔ تاہم سپریم کورٹ کی جانب سے تاحیات نااہلی کے باعث انتخابات میں شرکت ابھی مشکوک ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے لارجر بینج نے دو جنوری کو سیاست دانوں کی تاحیات نااہلی کے مقدمے کو سماعت کے لیے مقرر کر رکھا ہے اور ممکن ہے کہ اس سماعت میں تاحیات نااہلی کے معاملے کی وضاحت ہو جائے گی۔

سابقہ حکومت کی جانب سے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کو پانچ سال کیے جانے پر وسیم سجاد نے کہا کہ سپریم کورٹ میں یہ معاملہ بھی زیرِ غور آئے گا کہ کیا آئین کی گئی تشریح کو قانون سازی کے ذریعے تبدیل کیا جاسکتا ہے یا نہیں۔

کنور دلشاد کہتے ہیں کہ نواز شریف کو تاحیات نااہلی کا قانونی مسئلہ درپیش ہے جسے دور کیے بغیر انتخابات میں حصہ لینا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔

انہوں نے کہا کہ اس صورتِ حال کے باوجود دونوں سابق وزرائے اعظم اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرا سکتے ہیں جس پر ریٹرننگ آفیسر کاغذات نامزدگی کی منظوری یا مسترد ہونے کا فیصلہ کرے گا۔

وہ کہتے ہیں کہ ریٹرننگ آفیسر کا فیصلہ پریذائیڈنگ آفیسر اور پھر سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔

کنور دلشاد نے کہا کہ عمران خان اور نواز شریف دونوں کو انتخابات میں حصہ لینے کے لیے تیکنیکی، قانونی اور عدالتی سطح پر مشکلات کو دور کرنا پڑے گا۔

فورم

XS
SM
MD
LG