برطانوی غیر سرکاری تنظیم آکسفیم اس وقت دنیا کے 17 ممالک میں خواتین کے حقوق کے فروغ کے لیے” ریزینگ ہر وائس“کے نام سے ایک منصوبے پر کام کررہی ہے اور معروف پاکستانی تنظیم عورت فاؤنڈیشن کے ساتھ مل کر اب پاکستان میں بھی اس منصوبے کا آغاز کیا گیا ہے ۔ ابتدائی طور پر ملک کے 30 اضلاع میں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین پر مشتمل گروپ تشکیل دیے گئے ہیں اور ہر گروپ میں 50 خواتین شامل ہوں گی۔
آکسفیم کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کا مقصد خواتین کی ایک ایسی نئی قیادت کو ملک کے سیاسی منظر نامے پر اُبھارنا ہے کہ جو اُن محروم ، مظلوم اور بے اختیار عورتوں کے مسائل کو اُجاگر کرے، جو خود اپنی آواز اقتدار کے ایوانوں تک نہیں پہنچا سکتی ہیں۔ ضلعی سطح پر قائم کیے گئے ان گروپوں میں صرف ان خواتین کا انتخاب کیا گیا ہے جو نچلے اور متوسط طبقے کی نمائندگی کرتی ہیں۔
برطانیہ سے آئے ہوئے آکسفیم کے گلوبل پروگرام مینجر جان کراپر نے رواں ہفتے اسلام آبادمیں پاکستانی خواتین کے اس گروپ سے ملاقات کرکے ان کی سرگرمیوں کے بارے میں براہ راست آگاہی حاصل کی۔ اس موقع پر وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں اُنھوں نے بتایا کے دنیا کے جن دوسرے ممالک میں اس پروگرام پر عمل درآمد کیا جارہا ہے وہاں اس کے اب تک حوصلہ افزاء نتائج سامنے آئے ہیں۔
جان کراپر نے کہا کہ اس پروگرام کے باعث کئی ملکوں میں خواتین پر تشدد کے خلاف قوانین منظور ہوئے اور کئی حکومتوں نے خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے عالمی معاہدوں پر دستخط بھی کیے۔
اس سوال پر کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں قومی سیاست پر با اثر اور طاقتور خاندانوں کا ہمیشہ سے گہرا اثر رہا ہے ، متوسط طبقے کی خواتین کس طرح فیصلہ سازی کے عمل میں شرکت کرسکیں گی۔ جان کراپر نے کہا کہ یہ تبدیلی راتوں رات نہیں ہوگی بلکہ یہ ایک صبر آزما کام ہے جس کے لیے وقت درکار ہے۔ آکسفیم کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ اگر خواتین خاموش رہیں گی تو اُنھیں نظرانداز کیا جاتا رہے گا اس لیے اُنھیں اپنی آواز بلند کرنا ہوگی۔