رسائی کے لنکس

تین دہائیوں تک کمی کے بعد دنیا پھر جوہری ہتھیاروں میں اضافے کی طرف بڑھ رہی ہے


9 جنوری 2017 کو آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری تصویر میں جوہری مواد لے جانے کی اہلیت رکھنے والے میزائل کا تجربہ کیا جا رہا ہے ۔ (فائل)
9 جنوری 2017 کو آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری تصویر میں جوہری مواد لے جانے کی اہلیت رکھنے والے میزائل کا تجربہ کیا جا رہا ہے ۔ (فائل)

گزشتہ 35 سال میں دنیا بھر میں جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں کمی کے بعد، آئندہ عشرے میں جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں اضافہ ہونے والا ہے۔ یہ تحقیق ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب روس کی یوکرین کے ساتھ جنگ کے دنوں میں عالمی سطح پر تنازعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (SIPRI) کے اندازوں کے مطابق9 جوہری طاقتوں امریکہ، روس، برطانیہ، چین، فرانس، اسرائیل، شمالی کوریا، بھارت اور پاکستان کے پاس 2022 کے اوائل میں 12,705 جوہری ہتھیارتھے ۔ یہ تعداد 2021 کے اوائل کے مقابلے میں 375 کے فرق کے ساتھ کم تھی۔

اگر ہم ماضی پر نظر ڈالیں تو 1986 میں دنیا بھر میں جوہری ہتھیار کی تعداد 70 ہزار سے زیادہ تھی۔ تاہم اس کے بعد امریکہ اور روس نے سرد جنگ کے دوران تیار کیے گئے اپنے بڑے ہتھیاروں کی تعداد کو آہستہ آہستہ کم کر دیا تھا۔

لیکن، ’سپری‘ کے محققین کے مطابق، تخفیف اسلحہ کا یہ دور اب ختم ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے اور جوہری ہتھیاروں میں اضافے کا خطرہ اب سرد جنگ کے بعداپنے بلند ترین مقام پر ہے۔

رپورٹ کے مصنفین میں سے ایک، میٹ کورڈا نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ "جلد ہی، ہم اس مقام پر پہنچنے والے ہیں جہاں، سرد جنگ کے خاتمے کے بعد پہلی بار، دنیا میں جوہری ہتھیاروں کی عالمی تعداد میں اضافہ ہونا شروع ہو سکتا ہے"۔

’سپری‘ نے کہا ہے کہ پچھلے سال "معمولی" کمی آنے کے بعد جوہری ہتھیاروں میں آنے والی دہائی میں اضافہ متوقع ہے۔

یوکرین کی جنگ کے دوران روسی صدر ولادی میر پوٹن کئی موقعوں پر جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا حوالہ دے چکے ہیں۔

اسی اثناٗ میں، تحقیقی ادارے کے مطابق چین اور برطانیہ سمیت کئی ممالک سرکاری یا غیر سرکاری طور پر اپنے ہتھیاروں کو جدید بنا رہے ہیں یا ان کی تعداد میں اضافہ کر رہے ہیں۔

میٹ کورڈا نے کہا کہ، "اس جنگ کی وجہ سے اور پوٹن کی جانب سے اپنے جوہری ہتھیاروں کے بارے میں گفتگو کے انداز کی بنا پر آنے والے برسوں میں تخفیف اسلحہ پر پیش رفت کرنا بہت مشکل ہو گا۔"

جوہری جنگ جیتی نہیں جا سکتی

’سپری‘ کے مطابق، اقوام متحدہ کے جوہری ہتھیاروں پر پابندی کے معاہدے کے 2021 کے اوائل میں نافذ ہونے اور امریکہ-روس کے "نیو اسٹارٹ" معاہدے کی پانچ سال کی توسیع کے باوجود، صورت حال کچھ عرصے سے خراب ہو رہی ہے۔

ایران کے جوہری پروگرام اور ہائپرسونک میزائلوں کی تیزی سے تشکیل نے بھی تشویش میں اضافہ کیا ہے۔

’سپری‘ نے نوٹ کیا کہ ہتھیاروں کی مجموعی تعداد میں کمی امریکہ اور روس کی جانب سے پرانے وار ہیڈز کو ختم کرنے کی وجہ سے ہے، جب کہ آپریشنل ہتھیاروں کی تعداد پہلے جیسی ہی ہے ۔

دنیا کے جوہری ہتھیاروں کا 90 فیصد حصہ صرف روس اور امریکہ کے پاس ہے۔

’سپری‘ کے مطابق، روس 2022 کے اوائل میں 5,977 وار ہیڈز کے ساتھ سب سے بڑی جوہری طاقت ہے۔ایک سال پہلے کے مقابلے میں اس کے ہتھیاروں میں 280 وار ہیڈز کی کمی آئی ہے۔ ان ہتھیاروں کو یا تو کہیں نصب کر دیا گیا ہے یا اس سٹاک کا حصہ بنا دیا گیا ہے جہاں انہیں تلف کیا جانا ہے۔

’سپری‘ کے مطابق روس کے پاس 1600 وار ہیڈز کے بارے میں خیال ہے کہ وہ کسی بھی وقت استعمال کے لیے تیار ہیں۔

اس دوران امریکہ کے پاس 5,428 وار ہیڈز ہیں جو کہ پچھلے سال کے مقابلے میں 120 کم ہیں۔ لیکن امریکہ نے 1,750 جوہری ہتھیار نصب کر رکھے ہیں جو روس سے زیادہ ہیں۔

مجموعی تعداد کے لحاظ سے، چین 350 جوہری ہتھیاروں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ فرانس کے پاس 290 ،برطانیہ 225، پاکستان 165، بھارت 156 اور اسرائیل 90 وار ہیڈز کے ساتھ اس فہرست میں موجود ہیں۔

بھارت اور پاکستان دونوں ملک، اس رپورٹ کے مطابق، اپنے جوہری اسلحے میں اضافہ کر رہے ہیں اور دونوں ملک 2021 سے جوہری ہتھیار وں کی نئی اقسام کی تیاری جاری رکھے ہوئےہیں۔

اسرائیل ان 9 ممالک میں سے واحد ملک ہے جو سرکاری طور پر جوہری ہتھیار رکھنے کا اعتراف نہیں کرتا۔

جہاں تک شمالی کوریا کا تعلق ہے، ’سپری‘ کے مطابق، پہلی مرتبہ کم جانگ اُن کی کمیونسٹ حکومت اپنے جوہری وار ہیڈز کی تعداد بیس تک لے گئی ہے اور اس کے پاس اتنا ایٹمی مواد موجود ہے جس سے 50 جوہری ہتھیار تیار کیے جا سکتے ہیں۔

(خبر کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا)

XS
SM
MD
LG