رسائی کے لنکس

یمن کو بڑھتے ہوئے اقتصادی اور سیاسی مسائل کا سامنا


یمن کو بڑھتے ہوئے اقتصادی اور سیاسی مسائل کا سامنا
یمن کو بڑھتے ہوئے اقتصادی اور سیاسی مسائل کا سامنا

یمن میں ہنگامے جاری ہیں۔ مظاہرین تبدیلی کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن صدرعلی عبداللہ صالح کو ہٹانے کے لیے جو مذاکرات جاری تھے وہ تعطل کا شکار ہو گئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے شورش زدہ ملکوں میں یمن کے حالات سب سےزیادہ پیچیدہ ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ یمن میں کوئی کَل سیدھی نہیں ہے۔ کارنیگی اینڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس میں یمن کے امور کے ماہر کرسٹوفر بویوچک کہتے ہیں کہ ملک میں بے چینی کے بہت سے اسباب ہیں۔ ’’جب ہم بات کرتے ہیں ان مسائل کی جن کی وجہ سے ہنگامے ہو رہے ہیں، تو ہم کرپشن کی بات کرتے ہیں، بے روزگاری کی بات کرتے ہیں جس کی سرکاری شرح 35 فیصد ہے لیکن شاید اصل شرح تقریباً 50 فیصد ہے، ہم بات کرتے ہیں اقربا پروری کی اور معیشت کی خراب حالت کی۔ ملک میں پانی ختم ہو گیا ہے، تیل نہیں ہے، غرض یمن میں کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جو موجود نہ ہو‘‘۔

یمن جو سعودی عرب کی جنوبی سرحد پر واقع ہے، جزیرہ نمائے عرب کا غریب ترین ملک ہے۔ ملک بہت سے قبیلوں میں بٹا ہوا ہے، آبادی کا بڑا حصہ مضطرب نوجوانوں پر مشتمل ہے، باغیوں کی ایک تحریک اور القاعدہ بھی یمن میں سرگرم ہے۔
مشرقِ وسطیٰ کے بہت سے دوسرے ملکوں کی طرح جہاں لوگ تبدیلی کا مطالبہ کر رہے ہیں،یمن میں بھی سیاسی شکایتیں اقتصادی مسائل سے پیدا ہوئی ہیں۔ لیکن فرق یہ ہے کہ مصر اور تیونس جیسے ملک مطلق العنان حکمرانوں کے زیرِ تسلط تھے جب کہ یمن میں ایک صدر ہیں، وزیرِاعظم ہیں جن کا تقرر صدر کرتے ہیں، مجلس قانون ساز ہے اور سیاسی حزبِ اختلاف بھی موجود ہے۔

لیکن سیاسی تجزیہ کار کہتےہیں کہ سیاسی اداروں کو جڑ پکڑنے اور پختہ ہونے کا موقع نہیں ملا ہے۔ یمن میں امریکہ کی سابق سفیر باربرا بوڈائینی کہتی ہیں کہ 1990 میں متحد ہونے کے بعد یمن نے جمہوریت کی جانب سفر شروع کیا۔ لیکن اقتصادی انحطاط اور شیعہ Houthi باغیوں کی وجہ سے یہ عمل آگے نہ بڑھ سکا۔ ’’وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ یہ احساس اور مضبوط ہو گیا ہے کہ ملک میں حالات بد سے بد تر ہوتے جا رہے ہیں اور صدر بہت طویل عرصے سے یعنی 32 سال سے بر سر اقتدار ہیں۔ حکومت فرسودہ ہو چکی ہےاس میں اصلاح اور توانائی ضروری ہے‘‘۔

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ حکومت کے مخالفین میں ایک تو سرکاری حزب اختلاف ہے جو پارلیمینٹ میں ہے اوردوسرے سڑکوں پر احتجاج کرنے والے نوجوان ہیں۔ کرسٹوفر کہتے ہیں کہ حزبِ اختلاف ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہے اور صدر صالح کو ہٹانے کے سوا اس کا کوئی اور مشترک مقصد نہیں ہے۔ ’’حکومت کے مخالف تمام عناصر صر ف اس بات پر متحد ہیں کہ صدر صالح اور ان کے خاندان کو رخصت ہو جانا چاہیئے۔ اس کے سوا ان کا کوئی مشترکہ ایجنڈا یا پلیٹ فارم نہیں ہے‘‘۔

صدر صالح کے اقتدار چھوڑنے کے بارے میں مذاکرات تعطل کا شکار ہو چکے ہیں۔ فوج کے بعض سینیئر ارکان حزب اختلاف سے مل گئے ہیں۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ نہِں دیا ہے اور نہ حکومت سے تعلق ختم کیا ہے۔

کرسٹوفرکہتے ہیں کہ یہ لوگ صرف اپنے مستقبل کو محفوظ کرنا چاہتےہیں اور مذاکرات کے نتیجے میں کسی سمجھوتے سے پہلے اپنی پوزیشن کو مضبوط بنانا چاہتےہیں۔ صدر صالح اقتدار چھوڑنے پر تیار ہو جائیں گے بلکہ وہ بڑی حد تک پہلے ہی ایسا کر چکے ہیں۔ لیکن کوئی طریقۂ کار ہونا چاہیئے جس کے تحت اقتدار کسی نئے آنے والے کے حوالے کر دیا جائے۔

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ یہ بات واضح نہیں ہے کہ صدر صالح کے جانے کے بعد جو خلا پیدا ہو گا اسے کون پُر کرے گا۔ مصر میں تو صدر کے جانے کے بعد فوج نے ملک کا انتظام سنبھال لیا تھا۔ لیکن سابق سفیر باربرا کہتی ہیں کہ یمن میں سیاسی ڈھانچہ موجود ہے جس کی بنیاد پر نئے انتظامات کیے جا سکتےہیں۔ ’’مصر، تیونس اور شام کے برعکس یمن میں جمہوریت کا ڈھانچہ موجود ہے۔ وہاں سیاسی پارٹیاں ہیں، وہاں پارلیمینٹ ہے۔ ان اداروں نے لوگوں کی توقعات پوری نہیں کی ہیں۔ لہٰذا بجائے اس کے کہ بالکل نئے سرے سے کوئی چیز بنائی جائے جیسا کہ مصر اورتیونس میں کرنا پڑ رہا ہے، جو کچھ موجود ہے اور اسے حقیقی شکل دی جانی چاہیئے اور اسے اگلے مرحلے تک لے جانا چاہیئے‘‘۔

لیکن وہ کہتی ہیں کہ صدر صالح کے بعد جو بھی آئے گا اسے بہت سے سنگین مسائل سے نمٹنا پڑے گا جیسے آبادی کا ٹائم بم یعنی آبادی میں نوجوانوں کا بڑھتاہوا تناسب، ملک کی آمدنی میں مسلسل کمی، ملک کے اندر بغاوت اور یمن میں دہشت گرد تنظیم القاعدہ کی موجودگی۔

XS
SM
MD
LG