رسائی کے لنکس

بھائی آپ کس کی طرف سے ہو؟


ججز کمرہ میں پہنچے تو اٹارنی جنرل روسٹرم پر آئے۔ حکومتی اہلکاروں کے چہروں پر تناؤ صاف نظر آرہا تھا۔
ججز کمرہ میں پہنچے تو اٹارنی جنرل روسٹرم پر آئے۔ حکومتی اہلکاروں کے چہروں پر تناؤ صاف نظر آرہا تھا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کر دی لیکن اس دوران کئی ایسے مواقع آئے جب حکومتی شخصیات بشمول اٹارنی جنرل واضح طور پر پریشانی کا شکار دکھائی دیے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ججز کے ریمارکس اپنے حق میں آنے پر حکومتی شخصیات کے چہروں کی رونق واپس آئی۔

سپریم کورٹ میں سماعت کا آغاز ہوا تو آج بھی کمرہ نمبر ایک عدالت بھرا ہوا تھا۔ گذشتہ روز کے دیے گئے سخت ریمارکس کی وجہ سے میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد بھی انتظار میں تھے کہ آج بھی کل والا موڈ ہوگا یا آج مختلف ہوگا۔

ججز کمرہ میں پہنچے تو اٹارنی جنرل روسٹرم پر آئے۔ حکومتی اہلکاروں کے چہروں پر تناؤ صاف نظر آرہا تھا۔یہ تناؤ اس وقت بہت زیادہ بڑھ گیا جب چیف جسٹس جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جنرل راحیل شریف اور جنرل کیانی کی ریٹائرمنٹ سے متعلق دستاویزات طلب کرلیں۔

عدالت نے کہا کہ 15 منٹ کے اندر یہ دستاویزات فراہم کریں جس پر اٹارنی جنرل پریشانی کے عالم میں کمرہ عدالت سے باہر نکلے تو دائیں جانب مڑ گئے۔

ان کے اسٹاف نے کہا کہ بائیں جانب جانا ہے۔ اٹارنی جنرل بینچ-فور کی طرف جانے والے راستہ پر پہنچ گئے اور موبائل فون جیب سے نکال کر کہیں بات کرنے لگے۔

اس دوران شاید ان کو خیال آیا کہ یہ دستاویزات انہوں نے خود تو نہیں لانی، جس پر فون بند کرکے وہ اپنے اسٹاف کو ان کاغذات کے حوالے سے ہدایات دینے لگے۔

حکومتی اہلکار اس قدر دباؤ میں نظر آئے کہ ایک موقع پر جب چیف جسٹس نے کہا کہ آرمی چیف کے حوالے سے تیار کی گئی سمری میں ہمارا بالکل ذکر نہ کریں۔ ہمارا ان سمریوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

اس پر اٹارنی جنرل بے اختیار ہو کر بولے جو حصہ عدالت نے حذف کرنا ہے کر دے۔ باقی ہم درست کر لیں گے۔

عدالت میں حکومت کی پیش کردہ دستاویزات پر اعتراضات کا سلسلہ آج بھی جاری رہا اور چیف جسٹس نے کہا کہ آرمی چیف کو توسیع دینا آئینی روایت نہیں ہے۔ گزشتہ 3 آرمی چیفس میں سے ایک کو توسیع ملی دوسرے کو نہیں۔ اب تیسرے آرمی چیف کو توسیع ملنے جا رہی ہے۔ آرٹیکل 243 کے مطابق تعیناتی کرنی ہے تو مدت نکال دیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کم از کم آرٹیکل 243 پر تو مکمل عمل کریں۔ نہ تنخواہ کا تعین کیا گیا نہ ہی مراعات کا۔

نیا قانون بنانے کی بات شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل اور فروغ نسیم کے چہرہ کی رونق واپس لوٹ آئی۔ جب اس قانون کو بنانے کے لیے وقت کا تعین کرنے کی بات ہوئی تو اٹارنی جنرل نے کہا کہ نیا قانون بنانے کے لیے وقت لگے گا۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ درست کہا آپ نے۔ آپ سے 72 سال میں قانون نہیں بنا اتنی جلدی کیسے بنائیں گے۔

جس پر اٹارنی جنرل بولے کہ کوشش کریں گے جلد از جلد تین ماہ میں قانون سازی کر لیں گے۔

ریمارکس اپنے حق میں آتے دیکھ کر اٹارنی جنرل کو بھی حوصلہ ملا اور انہوں نے کہا کہ فروغ نسیم کا بھی مسئلہ حل ہو گیا ہے۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کی مداخلت سے مسئلے حل ہو جائیں گے۔ ہمارے پاس ریاض حنیف راہی آئے ہم نے جانے نہیں دیا۔ لوگ کہتے ہیں عدالت خود نوٹس لے۔ ہمیں جانا نہ پڑے۔ عدالت کے دروازے کھلے ہیں کوئی آئے تو سہی۔

بعد ازاں عدالت نے سماعت میں وقفہ کیا اور حکومت کو مہلت دی کہ وہ تمام بیان حلفی اور دستاویزات لے کر آئے۔

اس پر حکومتی شخصیات کے چہروں پر مسکراہٹ چھپائے نہیں چھپ رہی تھی۔ ہنستے مسکراتے فروغ نسیم باہر نکلے تو صحافیوں نے ان سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن فروغ نسیم نے کسی بات کا جواب نہ دیا۔

جب ان سے ان کی صحت کے بارے میں پوچھا کہ اب آپ کا کیا حال ہےَ تو وہ بولے کہ کل بھی بہتر تھا۔ آج بھی بہتر ہوں۔

دو گھنٹے اور 24 منٹ کے بعد چیف جسٹس نے کیس کی دوبارہ سماعت شروع کی تو ان کے سیکریٹری ان کے ساتھ ہی ججز انٹری سے کمرہ عدالت میں داخل ہوئے اور ایک فائل ان کے سامنے رکھ دی۔

اسی سے سب نے اندازہ لگا لیا کہ آرڈر لکھ لیا گیا ہے۔ باقی اب رسمی کارروائی ہے۔ چیف جسٹس نے دستاویزات مانگی اور ان کا جائزہ لینے کے بعد باقی ججز کے ساتھ سے دو سے تین منٹ تک مشاورت کی اور پھر مختصر فیصلہ سنا دیا۔

چیف جسٹس اور باقی ججز کے بعض جملوں پر دبی دبی ہنسی کی آوازیں بھی آتی رہیں۔

ایک موقع پر جب چیف جسٹس نے کہا کہ آرمی چیف ملک کےدفاع پر نظر رکھے یا آپ کے ساتھ بیٹھ کر قانونی غلطیاں دور کرے؟ تو کمرہ عدالت میں ہنسی کی آوازیں آنے لگیں لیکن ججز کے چہروں پر بدستور سنجیدگی چھائی رہی۔

فیصلے کے بعد اٹارنی جنرل اور فروغ نسیم ہنستے ہوئے کمرہ عدالت سے باہر نکلے۔ باہر موجود صحافیوں نے ان پر سوالات کی بوچھاڑ کر دی لیکن انہوں نے صرف مسکرانے پر اکتفا کیا اور سپریم کورٹ سے روانہ ہوگئے۔

اس دوران سپریم کورٹ کے احاطہ میں ایک شخص نے صحافیوں کے سامنے مٹھائی کا ڈبہ رکھا تو صحافیوں میں سے ایک نے بے اختیار پوچھا کہ تین سال کی توسیع کے بجائے چھ ماہ کی توسیع ملنے پر مٹھائی؟ بھائی آپ کس کی طرف سے ہو؟

XS
SM
MD
LG