رسائی کے لنکس

قومی اسمبلی سے 'زینب الرٹ' بل منظور


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کی قومی اسمبلی (ایوانِ زیریں) نے بچوں کے تحفظ کے لیے 'زینب الرٹ، ریسپانس اینڈ ریکوری بل' 2019 متفقہ طور پر منظور کر لیا ہے۔

یہ بِل صوبہ پنجاب کے شہر قصور میں دو سال قبل جنسی زیادتی کے بعد قتل کی جانے والی کم سن بچی زینب کی دوسری برسی کے موقع پر منظور کیا گیا۔

بل کے تحت بچوں سے زیادتی پر کم سے کم 10 اور زیادہ سے زیادہ 14 سال قید کی سزا اور 10 لاکھ روپے تک جرمانہ ہو گا۔

وفاقی وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے مذکورہ بل ایوان میں پیش کیا۔ جسے متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔

بل میں بچوں کے خلاف جنسی جرائم کی روک تھام اور پولیس کے ردِعمل سے متعلق مختلف ترامیم شامل کی گئی ہیں۔

بل میں گمشدہ بچوں کا ڈیٹا بیس تیار کرنے اور اس ضمن میں ایک ہیلپ لائن قائم کرنے کی بھی منظوری دی گئی ہے۔

بل کی منظوری کے دوران حکمران جماعت تحریک انصاف کے رُکن فہیم خان نے بچوں کے خلاف گھناؤنے جرائم میں ملوث افراد کو سرِ عام پھانسی دینے کی بھی تجویز دی لیکن اسے ایوان میں پذیرائی نہ مل سکی۔

خیال رہے کہ جنوری 2018 میں قصور کی سات سالہ زینب کی لاش کوڑے کے ڈھیر کے قریب سے ملی تھی۔ جسے زیادتی کے بعد قتل کیے جانے کی تصدیق ہوئی تھی۔

اس واقعے پر ملک بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی تھی جبکہ ملک گیر مظاہرے بھی ہوئے تھے۔

بعدازاں پولیس نے عمران علی نامی ملزم کو سی سی ٹی وی فوٹیج اور ڈی این اے نمونے کی تصدیق کے بعد گرفتار کیا تھا۔ مقامی عدالت نے مجرم کو سزائے موت دینے کا حکم دیا تھا۔

اعلیٰ عدالتوں اور صدر مملکت سے کی جانے والی رحم کی اپیلیں مسترد ہونے کے بعد مجرم کو گزشتہ سال 17 اکتوبر کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا تھا۔

بل میں کہا گیا ہے کہ بچوں کے خلاف ہونے والے جرائم کے مقدمات تین ماہ کے اندر اندر نمٹائے جائیں گے۔

بل کے تحت 1099 کے نام سے ہیلپ لائن قائم کی جائے گی۔ جس کے بعد بچوں کی گمشدگی کی اطلاع فوری طور ٹی وی چینلز، سوشل میڈیا، ہوائی اڈوں اور ریلوے اسٹیشنز پر دی جائے گی۔

بل میں بچوں کے خلاف جرائم کے ضمن میں آنے والی درخواستوں پر دو گھنٹے کے اندر کارروائی نہ کرنے والے پولیس اہلکار کے خلاف قانونی کارروائی کی بھی منظوری دی گئی ہے۔

قومی اسمبلی میں جو بل پیش کیا گیا تھا اس میں بچوں سے زیادتی کے مجرم کو سزائے موت دینے کے علاوہ ایک سے دو کروڑ روپے جرمانے کی سزا تجویز کی گئی تھی۔

تاہم قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے سزائے موت کو ختم کر کے عمر قید اور جرمانہ کم کر کے 10 لاکھ روپے کر دیا۔

حکومتی ردعمل

وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے بل کی منظوری پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تین ماہ کے اندر بچوں کے خلاف ہونے والے جرائم کو حل کرنے کی منظوری خوش آئند ہے۔

انہوں نے کہا کہ زینب الرٹ بل گزشتہ اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا۔ لیکن اسمبلی کی مدت ختم ہو گئی تھی۔ لہذٰا موجود اسمبلی نے اسے منظور کیا ہے اور امید ہے کہ سینیٹ بھی اس کی منظوری دے گی۔

انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری نے اس بل کے متفقہ طور پر پاس ہونے پر اپوزیشن ارکان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اس بل کے پاس ہونے سے بچوں کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا۔

زینب کیس کے بعد عوامی ردعمل اور حکومتی اقدامات کے باوجود پاکستان میں بچوں کے خلاف جرائم کی شرح میں کمی نہیں آ سکی۔

غیر سرکاری تنظیم ساحل کی رپورٹ کے مطابق 2018 میں بچوں کے خلاف 3832 جرائم کے تحت مقدمات درج ہوئے۔ اس دوران بچوں کے ساتھ زیادتی کے کیسز میں بھی 33 فی صد اضافہ ہوا۔

رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ پاکستان میں روزانہ 10 بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق 2017 میں بچوں کے خلاف زیادتی کے کیسز کی تعداد 3445 تھی جو 2018 میں بڑھ کر 3832 ہو گئی۔

ادارے کے مطابق 2019 میں ان کیسز کی تعداد میں اضافہ ہوا۔

XS
SM
MD
LG