رسائی کے لنکس

آصف زرداری کا نواز شریف سے ملاقات سے ایک بار پھر انکار


فائل فوٹو
فائل فوٹو

سابق وزیرِ اعظم نواز شریف نے ایک بار پھر سابق صدر اور پی پی کے شریک چیئر پرسن آصف علی زرداری سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا ہے جسے زرداری نے پھر مستر کر دیا ہے۔

پاکستان کی حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) اور حزبِ مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی قیادت کے درمیان رابطوں کی کوششوں کے باوجود سرد مہری کی فضا برقرار ہے۔

حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے سربراہ سابق وزیرِ اعظم نواز شریف نے ایک بار پھر سابق صدر اور پی پی کے شریک چیئر پرسن آصف علی زرداری سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا ہے جسے زرداری نے پھر مستر کر دیا ہے۔

جمعرات کو اسلام آباد میں احتساب عدالت میں پیشی کے بعد نواز شریف نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ کسی ذاتی مفاد کے لیے نہیں بلکہ ان کے بقول ملک کی خاطر آصف زرداری سے ہاتھ ملانے کے لیے تیار ہیں۔

پی پی پی کےایک عہدیدار نے جمعے کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ آصف زرداری نے نواز شریف کے بیان پر ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ، "(انہیں) چارٹر آف ڈیموکریسی اس وقت یاد آتا ہے جب یہ ان کی ذات کی بات ہو۔"

عہدیدار کے مطابق اسی بنا پر آصف زرداری نے نواز شریف سے ملنے سے معذرت کرلی ہے۔

دوسری طرف پی پی پی کے چیئر پرسن بلاول بھٹو زرداری نے بھی مسلم لیگ (ن) کے سربراہ کی پی پی پی کی قیادت سے رابطوں کو بحال کرنے کی خواہش کو مسترد کرتے ہوئے وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی سے کہا ہے کہ وہ پی پی پی کی پارلیمانی قیادت سے رابطہ کریں۔

لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلاو ل بھٹو زرداری نے کہا، "ہم نے اپنی پارلیمانی قیادت کو یہ اختیار سونپ رکھا ہے کہ وہ قومی اہمیت کے معاملات پر فیصلے کرنے کی مجاز ہے۔ جہاں تک میرا تعلق ہے میں ان (مسلم لیگ ن کی قیادت) سے ملنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔"

پاکستان مسلم لیگ کے بعض رہنماؤں کا کہنا ہے کہ نواز شریف اپنے ذاتی مفاد کے لے سابق صدر زرداری سے ملاقات کے خواہش مند نہیں بلکہ وہ جمہوریت اور ملک کے مفاد میں پی پی پی کی قیادت کے ساتھ تعاون چاہتے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور پنجاب کے وزیرِ قانون رانا ثنااللہ کا کہنا ہے کہ اس مرحلے پرسینیٹ میں آئینی ترمیمی بل کے لیے پیپلز پارٹی سمیت تمام جماعتوں کی مدد کی ضرورت ہے اور نواز شریف یہ مدد اپنی ذات کے لیے طلب نہیں کر رہے ہیں۔ وہ اس نظام کے لیے ہے، وہ بروقت انتخاب کے انعقاد کے لیے ہے وہ جمہوری عمل کے جاری رہنے کے لیے ہے۔

رواں ماہ کے اوائل میں پارلیمان میں موجود جماعتوں کے رہنماؤں نے 2017ء میں ملک میں ہونے والی مردم شماری کے نتائج کی روشنی میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نئی حلقہ بندیاں کرانے پر اتفاق کیا تھا۔

نئی حلقہ بندیوں کی مجوزہ آئینی ترمیم قومی اسمبلی سے منظور ہوچکا ہے لیکن سینیٹ سے اس کی منظوری کے لیے دو تہائی ارکان کی حمایت چاہیے جو حکمران جماعت اور اس کے اتحادیوں کو حاصل نہیں۔

پاکستان کی سپریم کورٹ کی طرف سے پاناما کیس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے نااہل قرار دینے کے بعد مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان پس پردہ ہونے والے رابطوں کے باوجود دونوں جماعتوں میں سرد مہری کی فضا قائم ہے۔

XS
SM
MD
LG