پی ٹی ایم رہنماؤں کو دھمکی آمیز خط سے ٹی ٹی پی کی لاتعلقی

پشتون تحفظ تحریک کے رہنما علی وزیر اور محسن داوڑ، فائل فوٹو

کرونا انفکشن کے اس بحران میں کالعدم گروپ تحریک طالبان پاکستان کے ایک دھڑے کی جانب سے پشتون تحفظ تحریک کے اہم رہنماؤں کے قتل کی دھمکی اور ردعمل میں حکومتی تحویل سے فرار ہونے والے قاری احسان اور شدت پسند تنظیم کے ترجمان کے بیانات سے سیاسی حلقوں میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔

ابھی تک سرکاری طور پر شدت پسند گروپ تحریک طالبان پاکستان کے ایک دھڑے کے علی وزیر کو دھمکیوں اور اس کے ردعمل میں قاری احسان اور ٹی ٹی پی کے بیانات پر کسی قسم کا بیان جاری نہیں کیا گیا۔

چند روز قبل کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ایک دھڑے سجنا گروپ نے مبینہ طور پشتون تحفظ تحریک کے رہنما اور ممبر قومی اسمبلی علی وزیر پر حملے کی دھمکی دی تھی۔ پشتون تحفظ تحریک کے رہنماؤں نے اس پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے حکومتی اداروں کی مبینہ سازش کا حصہ قرار دیا تھا۔ مگر سجنا گروپ کی اس دھمکی کے جواب میں گیارہ جنوری کو حکومتی تحویل سے فرار ہونے والے قاری احسان اللہ احسان نے ایک ٹویٹ میں نہ صرف اس دھمکی آمیز بیان کو صحیح قرار دیا بلکہ اس نے پی ٹی ایم کے رہنماؤں کی حکومتی اداروں پر الزامات کی بھی تائید کی۔

قاری احسان کا ٹوئٹ

'پاکستانی ادارے کافی عرصے اس موقع کے تلاش میں ہیں کہ کیسے علی وزیر، محسن داوڑ اور منظور پشتین کو قتل کر دیا جائے۔ آرمی پبلک اسکول حملے کی طرح طالبان کے اندر موجود اداروں کے کارندے اس کام کے لئے استعمال ہو سکتے ہیں'۔

قاری احسان کے اس ٹوئٹ کے فوراً بعد کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان نے ایک بیان میں قاری احسان اور سجنا گروپ کا نام لیے بغیر نہ صرف اس دھمکی آمیز بیان سے، بلکہ ماضی میں علی وزیر کے والد، بھائیوں اور دیگر رشتے داروں پر ہونے والے حملو ں سے بھی لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔

تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان محمد خراسانی کا خط

تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی ترجمان محمد خراسانی کے 30 مارچ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ۔۔

'عوام الناس ہوشیار رہیں، پاکستانی ایجنسیوں نے ایک بار پھر پرانے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے، تحریک طالبان پاکستان کا نام لے کر پی ٹی ایم کے ایک رہنما علی وزیر کو ڈرانے کی کوشش کی ہے۔

تحریک طالبان پاکستان ایک بار پھر واضح کرتی ہے کہ ہمارے اہداف واضح ہیں، اور ہم بےجا عوام کو تنگ کرنے یا انہیں اپنے مفادات کیلئے جان بوجھ کر نقصان پہنچانے کے نہ تو قائل ہیں، اور نہ ہی داعی۔ لوگ ان کے ہتھکنڈوں سے ہوشیار رہیں۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ 2004 میں علی وزیر کے والد سمیت پانچ افراد کے قتل کو تحریک طالبان سے منسوب کرنا غلط ہے کیونکہ یہ تحریک 2007 میں قائم ہوئی تھی۔

پشتون تحفظ تحریک کے علی وزیر کا ردعمل

پشتون تحفظ تحریک کے رہنما اور جنوبی وزیرستان سے ممبر قومی اسمبلی علی وزیر نے وائس آف امریکہ کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ اس قسم کی دھمکیوں کے پیچھے ریاستی ادارے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی انہیں یا پشتون تحفظ تحریک کو اپنے حقوق کے تحفظ کی مہم سے روک نہیں سکتا۔

قاری احسان اللہ احسان نے ریاستی تحویل سے اپنے اہل و عیال سمیت فرار ہونے کے بعد جنوری میں اپنے فرار سے متعلق ایک ویڈیو پیغام جاری کیا تھا، جس کی بعد ازاں حکومتی اداروں نے تصدیق کر دی تھی۔

شمالی اور جنوبی وزیرستان میں دہشت گردی کے واقعات گاہے گاہے اب بھی ہو رہے ہیں۔ 30 جنوری کو شمالی وزیرستان کے دوسرے اہم قصبے میر علی میں یکے بعد دیگرے تشدد کے دو واقعات ہوئے۔ پہلے واقعہ میں قومی اسمبلی کے ایک سابق ممبر کی گاڑی پر، جب کہ دوسرے میں پولیس کی گاڑی پر دیسی ساختہ ریموٹ کنٹرول بم سے حملے کئے گئے۔ ممبر قومی اسمبلی محمد نذیر خان اس حملے میں محفوظ رہے، تاہم ان کی گاڑی کو شدید نقصان پہنچا۔ جب کہ پولیس کی گاڑی پر حملے میں ایک اہل کار شدید زخمی ہوا۔