رسائی کے لنکس

احسان اللہ احسان کے مبینہ فرار کے خلاف آرمی پبلک اسکول کے متاثرین کا مظاہرہ


مظاہرے میں شریک افراد نے قاری احسان اللہ احسان کی تصاویر اٹھا رکھی تھیں جن پر مختلف عبارتیں لکھی ہوئی تھیں۔
مظاہرے میں شریک افراد نے قاری احسان اللہ احسان کی تصاویر اٹھا رکھی تھیں جن پر مختلف عبارتیں لکھی ہوئی تھیں۔

خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں 16 دسمبر 2014 کو آرمی پبلک اسکول کے ہلاکت خیز حملے میں نشانہ بننے ہونے والے بچوں کے والدین نے طالبان کمانڈر قاری احسان اللہ احسان کے حکومتی تحویل سے مبینہ فرار کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔

مظاہرین نے حکومت سے ان کی فوری گرفتاری اور عدالت کے سامنے پیش کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔

دو درجن کے قریب والدین بدھ کی سہ پہر پشاور پریس کلب کے سامنے جمع ہوئے۔ مظاہرے میں شریک افراد نے قاری احسان اللہ احسان کی تصاویر اٹھا رکھی تھیں جن پر مختلف عبارتیں لکھی ہوئی تھیں۔ مظاہرین نے حکومت کے خلاف نعرے بھی لگائے۔

آرمی پبلک اسکول کے حملے میں مرنے والے بچوں کے والدین کی تنظیم کے سربراہ فضل خان ایڈوکیٹ، پشتون تحفظ تحریک کے رہنما ڈاکٹر سید عالم محسود اور دیگر نے مظاہرین سے مختصر خطاب کیا۔ جن میں قاری احسان اللہ احسان کی حکومتی تحویل سے فرار نہ صرف سیکیورٹی اداروں کی ناکامی بلکہ ایک منظم سازش قرار دی گئی۔

مقررین کا کہنا تھا کہ وہ کسی طور پر خاموش نہیں بیٹھں گے بلکہ حکومت کو قاری احسان اللہ احسان کو دوبارہ گرفتار اور عدالت کے سامنے پیش کرنے کے لیے احتجاج جاری رکھیں گے۔

فضل خان ایڈوکیٹ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یوں دکھائی دیتا ہے کہ قاری احسان اللہ احسان کو وعدے کے مطابق فرار ہونے کا موقع فراہم کر دیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ قاری احسان اللہ احسان چاہے ترکی میں ہوں یا کسی او ر ملک میں، ان کو فوری طور پر گرفتار کرکے واپس لایا جائے اور ان کو فوجی عدالت میں پیش کرکے قرار واقعی سزا دی جائے۔

ان کے بقول حکومت یا سیکیورٹی اداروں نے قاری احسان اللہ احسان کے فرار پر کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا۔ جس سے بہت سے شکوک وشہبات جنم لے رہے ہیں۔

واضح رہے کہ چھ فروری ایک بیان میں قاری احسان اللہ احسان نے رواں سال 11 جنوری کو حکومتی تحویل سے اہل وعیال سمیت فرار ہونے کا دعوٰی کیا تھا۔

اس بیان میں قاری احسان اللہ احسان نے ان کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے خلاف ورزی کرنے پر فوج اور تحقیقاتی اداروں پر شدید تنقید بھی کی تھی۔

سابق سینئر بیوروکریٹ اور افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر رستم شاہ مہمند کے مطابق قاری احسان موقع پاتے ہی فرار ہوگئے ہیں اور اب اُنہوں نے ترکی میں پناہ حاصل کی ہے۔

رستم شاہ مہمند نے کہا کہ ایک معاہدے کےتحت قاری احسان اللہ نے اپنے آپ کو حکومت کے حوالے کیا تھا مگر بعد میں حکومت کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر عمل درآمد نہ ہو سکا جس کی وجہ سے وہ موقع پاتے ہی فرار ہو گئے۔

XS
SM
MD
LG