’بلوچستان میں سیاسی انتظامیہ کا وجود غیر موثر‘

’بلوچستان میں سیاسی انتظامیہ کا وجود غیر موثر‘

ایچ آر سی پی کی سربراہ نے متنبہ کیا کہ اگر حکومت نے بلوچستان کے مسئلے کا سیاسی حل ڈھونڈنے کی بجائے طاقت کے استعمال کی پالیسی ترک نہ کی تو صوبے میں جاری علیحدگی کی تحریک قابو سے باہر ہو سکتی ہے۔ ”اگر بلوچستان کی حکومت کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ وہ ہے ہی نہیں ، ساری اتھارٹی بلوچستان میں سکیورٹی فورسز کے حوالے کردی گئی ہے اور جو سویلین حکومت ہے وہ بالکل پیچھے ہوکر بیٹھی ہے۔ ہر طرف فورس کا استعمال زیادہ ہورہا ہے ، بجائے اس کے کہ کوئی سیاسی ڈائیلاگ شروع کیا جائے کسی بھی سیکشن آف سوسائٹی سے۔“

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے بلوچستان میں امن وامان کی مجموعی صورت حال پر اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ صوبے میں لاقانونیت تشویش ناک حد تک بڑھ چکی ہے جبکہ ہدف بنا کر قتل کرنے، اغواء، مذہبی اقلیتوں پر حملے اور لوگوں کے لاپتہ ہونے کے نا ختم ہونے والے واقعات نے مقامی آبادی کومسلسل خوف و ہراس میں مبتلا کرر کھا ہے۔

رپورٹ کے اجراء کے موقع پر اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کمیشن کی سربراہ زہرہ یوسف نے بتایا کہ گزشتہ ایک سال کے دوران صوبے میں 140 ایسے افراد کی مسخ شدہ لاشیں ملیں جو لاپتہ ہوگئے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ماضی میں لاپتہ ہونے والے افراد کچھ عرصے کے بعد گھروں کو واپس آجایا کرتے تھے لیکن اب ایسے لوگو ں کی تشدد کا شکار لاشیں سڑک کے کنارے ملتی ہیں اور حالیہ دنوں میں اس خطرناک رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔

زہرہ یوسف نے کہا کہ 2009 ء سے آج تک بلوچستان میں 143 افراد کے لاپتہ ہونے کی تصدیق ہوئی ہے اور ان کے بقول یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے ۔انھوں نے کہا کہ کمیشن کے پاس دستیاب شواہد لاپتہ افراد کے خاندانوں کے دعوؤں کی تصدیق کرتے ہیں کہ اغوا کی ان وارداتوں میں سکیورٹی حکام ملوث ہیں اور دوران حراست انھیں قتل کیا گیا۔

زہرہ یوسف

کمیشن کی سربراہ نے متنبہ کیا کہ اگر حکومت نے بلوچستان کے مسئلے کا سیاسی حل ڈھونڈنے کی بجائے طاقت کے استعمال کی پالیسی ترک نہ کی تو صوبے میں جاری علیحدگی کی تحریک قابو سے باہر ہو سکتی ہے۔ ”اگر بلوچستان کی حکومت کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ وہ ہے ہی نہیں ، ساری اتھارٹی بلوچستان میں سکیورٹی فورسز کے حوالے کردی گئی ہے اور جو سویلین حکومت ہے وہ بالکل پیچھے ہوکر بیٹھی ہے۔ ہر طرف فورس کا استعمال زیادہ ہورہا ہے ، بجائے اس کے کہ کوئی سیاسی ڈائیلاگ شروع کیا جائے کسی بھی سیکشن آف سوسائٹی سے۔“

کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صوبے میں سرگرم عمل ریاستی کارندے یا پھر باغی اور مذہبی شدت پسند سبھی عام شہریوں کے حقوق کی پامالی میں ملوث ہیں اورحکام کی ان ”حقائق سے چشم پوشی بلوچستان کو تیزی سے افرا تفری کی طرف دھکیل رہی ہے‘‘۔

تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق صوبے میں تمام تر اختیارات بظاہر سکیورٹی فورسز کے پاس ہیں جن میں نیم فوجی ادارہ’ ایف سی‘ سرفہرست ہے جس کے اہلکاراپنے آپ کو سیاسی حکومت یا پھر عدلیہ کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتے اور نا ہی سول انتظامیہ کے ساتھ تعاون کو اپنی ذمہ داری مانتے ہیں۔” شہریوں کی اکثریت حفاظتی چوکیوں پر تعینات ایف سی کے اہلکاروں کے رویے سے نالاں ہے۔“

ایچ آر سی پی کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ اپنی نمائندگی کے لیے بلوچستان کی عوام نے جس شہری انتظامیہ کو منتخب کیا بظاہروہ اپنے اختیارات سے دستبردار اور مکمل طور پر صوبے میں فوجی حکام کی اطاعت شعاری کررہی ہے اس لیے وہ بھی حالات کی خرابی میں برابر کے ذمہ دار ہیں۔

”خوف و ہراس کے اس ماحول میں سیاسی جماعتیں اپنے مطالبات کے لیے آپس میں مذاکرے سے بھی گریز کرتی ہیں جبکہ سیاسی کارکن رات کے اندھیروں میں ملاقاتیں کرتے ہیں اور اس پیش رفت کے بعد صوبے میں سیاسی سرگرمیوں کے لیے زمین تنگ ہوتی جارہی ہے۔ “

باغی عناصر اور مذہبی شدت پسند ، رپورٹ کے مطابق لسانی اور عقائد کی بنیاد پر لوگوں کو ہدف بنا کر قتل کرنے کے واقعات میں بے روک ٹوک ملوث ہیں۔”ان میں تاجر، اساتذہ، ڈاکٹر اور دیگر پیشوں سے منسلک ماہرین شامل ہیں۔ ان واقعات میں باغی تنظیمیں بلا خوف وخطر بلوچستان میں آبادکاروں خصوصاََ پنجابیوں کو ہدف بنا رہی ہیں۔بلوچ قوم پرست عناصر میں بعض خاموشی سے ان ہلاکتوں کو درگزر کرتے ہیں جبکہ دیگرکھل کر ان کی مذمت نہیں کرتے۔“

ایچ آر سی پی نے 2005ء اور 2009ء میں بھی بلوچستان میں امن وامان کی صورت حال پر اپنی تحقیقاتی رپورٹیں جاری تھیں۔تنظیم کی سربراہ زہرہ یوسف کا کہنا ہے کہ ان رپورٹوں میں دی گئی سفارشات پر اگر حکومت پاکستان نے بروقت اقدامات اُٹھائے ہوتے حالات اس قدر سنگین نا ہوتے۔

بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور ملک کے مجموعی رقبے کا 43 فیصدہے۔ قدرتی معدنیات سے مالا مال ہے اورتوانائی کے بحران سے دوچار ملک کو گیس سپلائی کرنے والا یہ دوسرا بڑا ذریعہ ہے۔بلوچ قوم پرست تنظیمیں ایک طویل عرصے سے صوبائی خودمختاری اور اپنے قدرتی وسائل پر زیادہ سے زیادہ اختیار حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کررہی ہیں۔ تاہم حالیہ دنوں میں صوبے میں متحرک مسلح باغی تنظیموں کی طرف سے ایک آزاد بلوچستان کے مطالبات میں تیز ی آئی ہے۔حکومت پاکستان کا الزام ہے کہ ان تنظیموں کو دوسرے ملکوں سے مالی مدد اور حمایت حاصل ہے جن میں بھارت کا نام سر فہرست ہے۔ لیکن بھارتی حکومت ان الزامات کو رد کرتی ہے۔

پاکستان کے اس جنوب مغربی صوبے میں سرگرم عمل باغی تحریک کے تین اہم کرداروں میں بلوچ رپبلکن آرمی (بی آراے)، بلوچ لیبریشن آرمی (بی ایل اے) اور بلوچ لیبریشن فرنٹ(بی ایل ایف) ہیں۔

حکام کے بقول بی آر اے کی قیادت مقتول بلوچ رہنما نواب اکبر بگٹی کے پوتے براہمدغ بگٹی کے پاس ہے جواطلاعات کے مطابق حال ہی میں افغانستان سے سوئٹزرلینڈ منتقل ہو گئے ہیں۔ اس تنظیم کے جنگجو زیادہ تر ڈیر ہ بگٹی، کوہلو، جعفر آباد اور نصیر آباد کے اضلاع میں سرکاری اہداف پر حملوں اور دیگر تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔بی ایل اے کی کارروائیوں کی نگرانی لندن میں خود ساختہ جلاوطن بلوچ لیڈر حربیار مری کرتے ہیں جبکہ بی ایل ایف حکام کے بقول بلوچستان طلبہ تنظیم (بی ایس او) کا عسکری دھڑا ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان


وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوے وفاقی وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے ایچ آر سی پی کی رپورٹ پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اس تاثر کو رد کیا کہ بلوچستان میں حکومت کی عملداری ختم ہو چکی ہے۔

”حکومت کا کام ہوتا ہے پالیسیاں دینا، اس کا کام ہے ایک روڈ میپ دینا جو اس پر عمل درآمد ہے وہ آپ کے سکیورٹی کے ادارے کرتے ہیں، آپ کی فوج کرتی ہے ، آپ کی ایجنسیاں کرتی ہیں، آپ کی پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کرتے ہیں تو حکومت کا دیا روڈ میپ اگر وہاں پر فوج یا کانسٹبلری یا انٹیلی جنس ادارے کرتے ہیں تو وہ حکومت کی ہدایت پر کرتے ہیں۔ وزیراعظم یا صدر پاکستان تو کوئی بندوق پکڑ کے کسی جگہ پرقانون کے نفاذ کے لیے نہیں جاتے۔“

وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ حکومت پاکستان سیاسی طور پر بلوچستان کے مسائل کا حل ڈھونڈنے کی کوششیں کررہی ہے۔’’اس مقصد کے حصول کے لیے ناراض حلقوں کووزیر اعظم نےبار بار مذاکرات کی دعوت دی ہے لیکن دوسری جانب سے کوئی جواب نہیں آیا ہے۔‘‘

تاہم ہیومن رائٹس کمیشن کی سربراہ زہرہ یوسف نے بلوچستان کے حوالے سے سرکار ی دعوؤں کی مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی سنجیدگی کا انداز ہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کمیشن نے اپنی رپورٹ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو پیش کرنے کے لیےخط کے ذریعے ان سے ملاقات کی درخواست کی اور یاد دہانی بھی کرائی لیکن حکومت کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا۔