پاکستان کی 'مبہم' پالیسی افغانستان میں ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی نہ ہونے کی وجہ؟

ایک انٹرویو میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پاکستان کی جانب سے ملے جلے اشاروں کی وجہ سے افغان طالبان نے ٹی ٹی پی کے خلاف مؤثر کارروائی نہیں کی۔

پاکستان کے وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ افغان طالبان کی جانب سے کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف کارروائی نہ کرنے کی وجہ پاکستان کی جانب سے ملنے والے ملے جلے 'اُشارے' ہیں۔

اُن کے بقول پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے طالبان حکومت سے کہا تھا کہ ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو پاکستان میں اُن کے آبائی علاقوں میں بسانے کے عوض مفاہمت کرائی جائے۔

جرمنی کے شہر میونخ میں جرمن نشریاتی ادارے 'ڈی ڈبلیو اُردو' کو دیے گئے انٹرویو میں بلاول بھٹو نے افغانستان کا نام لیے بغیر کہا کہ جب تک ہمسایہ ملک میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہیں ہو گی، پاکستان کے لیے سیکیورٹی خطرات رہیں گے۔

بلاول بھٹو زرداری پاکستان کی سابق حکومت کی طرف سے ٹی ٹی پی کے ساتھ غیر مشروط بات چیت کی پالیسی کو بھی تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں۔

خیال رہے کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی حکومت نے کالعدم تحریکِ طالبان سے افغان طالبان کی ثالثی میں 2021 میں مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ ان مذاکرات کے تحت ٹی ٹی پی کے لوگوں کو پاکستان میں اُن کے آبائی علاقوں میں بسانے کے عمل کا بھی آغاز ہوا تھا۔

سابق وزیرِ اعظم عمران خان بارہا کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز اور قبائلی علاقوں کے سیاسی رہنماؤں کی مشاورت سے ان عناصر کو پاکستان میں آبا دکرنے کی تجویز تھی۔

ان کےبقول جب افغانستان کی جنگ ختم ہوگئی تو ہزاروں عسکریت پسند اپنے خاندانوں کے ہمراہ پاکستان واپس آنا چاہتے تھے ۔ لیکن اپریل 2022 میں عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد عمران خان کے مطابق اس معاملے سے موجودہ حکومت کی توجہ ہٹ گئی تھی۔

SEE ALSO: کراچی پولیس آفس پر حملہ؛ کیا ٹی ٹی پی شہر میں دوبارہ فعال ہو رہی ہے؟

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وہ دہشت گرد جو پشاور کے آرمی پبلک اسکو ل حملے میں ملوث ہیں ان سے کسی طور پر بات چیت نہیں ہو سکتی ہے۔

بلاول بھٹو کا مزید کہنا تھا کہ جو ملک ٹی ٹی پی کو دوست رکھے گا وہ پاکستان کا دوست نہیں بن سکتا۔ اُنہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ آرمی پبلک اسکول جیسے اندوہناک واقعے میں ملوث دہشت گرد ہر پاکستانی کی ریڈ لائن ہیں۔

'جو پاکستان کے آئین کو نہیں مانتے ان سے مذاکرات کرنا ملک کے مفاد میں نہیں'

بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ جو تنظیمیں پاکستان کے آئین کو نہیں مانتیں، ان سے مذاکرات نہیں ہو سکتے ہیں۔

افغانستان میں غیر ملکی فورسز کے انخلا کے بعد پاکستان میں ٹی ٹی پی کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے اور حال ہی میں پشاور کی ایک مسجد اور کراچی پولیس کے ہیڈکوارٹر پر ہونے والے حملوں کے بعد پاکستان کی طرف سے دوبارہ کابل سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کی کارروائیوں کو محدود کرے۔

پاکستان کی وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر نے گزشتہ سال نومبر میں اپنے دورۂ کابل کے دوران بھی افغان طالبان حکام کو باور کرایا تھا کہ اگر ٹی ٹی پی کا معاملہ مزید بگڑا تو پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کو نقصان پہنچے گا۔

دفاعی امور کے تجزیہ کار سعد محمد کہتے ہیں کہ ایسی کوئی مثال نہیں ملتی ہے کہ پاکستان کے کہنے پر کسی افغان حکومت نے پاکستان مخالف عناصر کے خلاف کوئی کارروائی کی ہو۔


دوسری جانب پاکستا ن نے بھی ماضی میں کابل مخالف عناصر بشمول افغان طالبان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی تھی جب سابق افغان حکومتیں یہ الزام عائد کرتی رہی تھیں کہ افغان جنگ کے دوران افغان طالبان پاکستان کی سرزمین استعمال کرتے تھے جسے پاکستان اس وقت مسترد کرتا تھا۔

سعد محمد کہتے ہیں کہ کسی شدت پسند گروپ کے خلاف افغان طالبان کا کوئی کارروائی کرنا ایک الگ معاملہ ہے لیکن ان گروپوں کو افغانستان سے باہر کسی کارروائی کی اجازت دینا مناسب بات نہیں تھی۔

اُن کے بقول اُنہیں نہیں لگتا کہ افغان طالبان کی پاکستانی طالبان کے خلاف کارروائی کا تعلق پاکستان کی پالیسی میں ابہام سے ہے۔

سعد محمد کہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی نظریاتی طور پر افغان طالبان کے بہت قریب ہے اور ٹی ٹی پی کے جنگجو افغان طالبان کے امیر کو ہی اپنا امیر مانتے ہیں۔لہذٰا یہی وجہ ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی سے کتراتے ہیں۔

خیال رہے کہ افغان طالبان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ وہ افغان سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

سعد محمد کہتے ہیں کہ افغان طالبان کی اس پالیسی میں اس وقت کوئی تبدیلی واقع ہو سکتی جب انہیں احساس ہو گا کہ اس پالیسی کی وجہ سے کوئی قیمت نہ ادا کرنی پڑے جو افغان طالبان کی برد شت سے باہر ہوں۔

اُن کے بقول فی الحال ایسے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی کارروائی کریں گے یا ان کی سرگرمیوں کو محدود کریں گے۔

سعد محمد کہتے ہیں کہ اگر پاکستان کوئی ایسی پالیسی وضع کرے جس سے افغان طالبان حکومت کے لیے مشکلات پیدا ہوں تو پھر شاید وہ ٹی ٹی پی سے متعلق اپنی پالیسیوں کو تبدیل کرنے پر آمادہ ہوں۔

افغان طالبان کی سیکیورٹی فورسز کی استعداد کار کے کمی کے باوجود تجزیہ کار سعد محمد کہتے ہیں کہ وہ ٹی ٹی پی کے کے خلاف ایسے اقدامات کر سکتے ہیں جن کی وجہ سے ان کی پاکستان مخالف سرگرمیوں میں خاطر خواہ کمی ہو سکتی ہے۔

افغان امور کے تجزیہ کار طاہر خان کہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذکرات کروانے کے لیے افغان طالبان نے کردار ادا کیا تھا لیکن بات چیت کو کامیا ب کروانا ان کے بقول پاکستان کی ذمے داری تھی۔

طاہر خان کہتے ہیں کہ یہ معاملہ ٹی ٹی پی اور پاکستان کی حکومت کے درمیان تھا اور پاکستان کے حکومت کے لیے ٹی ٹی پی کے مطالبات ماننا مشکل تھا خاص طورپر سابق قبائلی علاقوں فاٹا کی پرانی حیثیت بحال کرنے کا مطالبہ پورا کرنے پاکستان کے لیے ناممکن ہے۔

دوسری جانب پاکستان کی طرف سامنے رکھنے گئے مطالبات ٹی ٹی پی نے بھی قبول نہیں کیے تھے جس میں ٹی ٹی پی کے نام کی تبدیل کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی طرف سے ہتھیار ڈالنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے آئین کو تسلیم کرنے کی شرط بھی شامل تھی۔

طاہر خان کہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی نے افغان طالبان کے موجود ہ اور ماضی کےامیر کے ہاتھ بیعت کر رکھی ہے اس لیے اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کریں کیوں کہ اسلام آباد اور کابل کے درمیان اعتماد کے فقدان ہے۔