ٹی ٹی پی کی واپسی کی اطلاعات؛ سوات کے مختلف مقامات پر پولیس چیک پوسٹس قائم

فائل فوٹو۔پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ سوات کے بالائی علاقوں میں پولیس کی بھاری نفری موجود ہے اور سرچ آپریشن جاری ہے۔

پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا کے ضلع سوات میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی واپسی کی اطلاعات کے بعد قانون نافذ کرنے والے ادارے متحرک ہوگئے ہیں۔ ضلع کے مختلف داخلی و خارجی راستوں پر پولیس کی چیک پوسٹس قائم کردی گئی ہیں۔

سوات کی تحصیل مٹہ اور دیگر ملحقہ علاقوں میں ٹی ٹی پی کی واپسی کی اطلاعات کے بعد ضلع بھر میں پولیس نے پیٹرولنگ شروع کردی ہے۔

پولیس نے داخلی و خارجی راستوں سمیت مختلف مقامات پر چیک پوسٹس قائم کردی ہیں، جہاں سیکیورٹی اہلکار آنے اور جانے والوں سے پوچھ گچھ کر رہے ہیں۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ضلع میں امن و امان کی صورتِ حال ہر صورت برقرار رکھی جائے گی اور عوام کے جان و مال کی حفاظت کی جائے گی۔


اس بارے میں پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ سوات کے بالائی علاقوں میں پولیس کی بھاری نفری موجود ہے اور سرچ آپریشن جاری ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ کئی روز سے سوات میں عسکریت پسندوں کی مبینہ موجودگی کی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں۔

پاکستان کے مقامی اخبار دی نیوز نے رپورٹ کیا ہے کہ ٹی ٹی پی نے سوات میں بالاسور ٹاپ پر ایک چیک پوسٹ قائم کرلی ہے جب کہ مشتبہ عسکریت پسند تحصیل مٹہ کے دیگر علاقوں میں بھی گھوم رہے ہیں۔

ضلع میں عسکریت پسندوں کی مبینہ موجودگی کے بعد علاقے کے لوگوں میں خوف ہراس پھیل گیا ہے۔ سوات کے علاقے مینگورہ سے اس طرح کی بھی اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ مبینہ عسکریت پسند پولیس اور سیکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کو علاقے میں داخل ہونے سے روک رہے ہیں۔

مختلف علاقوں میں مظاہرے

ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں کی اطلاعات پر سوات کے مختلف علاقوں میں شہریوں نے احتجاجی مظاہرے کیے ہیں۔تحصیل خوازہ خیلہ، کبل اور مٹہ میں ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں کے خلاف لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔

وائس آف امریکہ کے نمائندے شمیم شاہد کے مطابق مٹہ چوک میں سینکڑوں مظاہرین نے احتجاج کیا۔ مظاہرین نے بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جس پر دہشت گردی کے خلاف نعرے درج تھے۔

اس موقع پر مقررین کا کہنا تھا کہ ''سوات میں دہشت گردوں کی آمد کے باوجود حکومتی خاموشی حیران کن ہے۔''

مظاہرین کا مؤقف تھا کہ سوات کے عوام مزید کسی قسم کی دہشت گردی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ لہذٰا حکومت دہشت گردوں کے قلع قمع کے لیے فوری اقدامات کرے۔

خیال رہے کہ سن 2007 سے لے کر 2009 تک سوات اور اس کے ملحقہ علاقوں میں تحریکِ طالبان پاکستان نے اپنی جڑیں مضبوط کر لی تھیں۔ ان علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا تھا۔

حکومتِ پاکستان نے 2009 میں ٹی ٹی پی کے خلاف آپریشن کا فیصلہ کیا تھا جس کے بعد بڑی تعداد میں لوگ سوات سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔

سوات میں ٹی ٹی پی کی دوبارہ آمد کی اطلاعات پر وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ نے چند روز قبل ایک نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ یہ اطلاعات حکومت کے نوٹس میں ہیں۔ وفاقی حکومت، خیبرپختونخوا حکومت کے ساتھ مل کر اس معاملے میں اقدامات اُٹھائے گی۔

سوات میں ٹی ٹی پی کی دوبارہ آمد کی اطلاعات ایسے وقت میں آئی ہیں جب افغانستان میں ٹی ٹی پی اور حکومتِ پاکستان کے درمیان مذاکرات کے بھی کئی دور ہو چکے ہیں۔ فریقین نے جون میں غیر معینہ مدت کے لیے جنگ بندی کا بھی اعلان کر رکھا ہے۔ لیکن چند روز قبل تحریکِ طالبان کے اہم رہنما عمر خالد خراسانی کی افغان صوبے پکتیکا میں پراسرار حملے میں ہلاکت کے بعد امن عمل کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ گئے تھے۔

اس واقعے کے اگلے ہی روز شمالی وزیرستان میں پاکستانی فوج کے ایک قافلے پر مبینہ خود کش حملے میں چار سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔