رسائی کے لنکس

ٹرمپ کی رہائش گاہ پر چھاپہ، تفتیش کاروں کو کن دستاویزات کی تلاش تھی؟


 یہ چھاپہ اس تفتیشی کارروائی کا حصہ تھا جس میں خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ سابق صدر جنوری 2021 میں اپنا عہدہ چھوڑنے کے بعد وائٹ ہاؤس سے جاتے ہوئے کچھ دستاویزی ریکارڈ اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
یہ چھاپہ اس تفتیشی کارروائی کا حصہ تھا جس میں خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ سابق صدر جنوری 2021 میں اپنا عہدہ چھوڑنے کے بعد وائٹ ہاؤس سے جاتے ہوئے کچھ دستاویزی ریکارڈ اپنے ساتھ لے گئے تھے۔

میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ فلوریڈا میں سابق صدر کی رہائش گاہ پر امریکی وفاقی ایجنٹوں کے چھاپے کا مقصد جوہری ہتھیاروں سے متعلق دستاویزات کی تلاش تھی۔

واشنگٹن پوسٹ نے جمعرات کو اپنی اشاعت میں لکھا ہے کہ یہ واضح نہیں ہے کہ سابق صدر کی پام بیچ میں واقع رہائش گاہ مارالاگو سے دستاویزات برآمد ہوئیں ہیں یا نہیں۔ جب کہ خبررساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق جوہری ہتھیاروں سے متعلق دستاویزات کی تلاش کی رپورٹ کی تصدیق نہیں ہو سکی۔

ادھرامریکی محکمہؐ انصاف نے جمعرات کو اس وارنٹ کو عام کرنے کی اجازت دینے سے متعلق عدالت میں درخواست دائر کی ہے جس کے تحت ایف بی آئی کو مارالاگو پر چھاپہ مارنے کی اجازت دی گئی تھی۔ جب کہ ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے رہنما ٹرمپ نے چھاپے کو انتقامی کارروائی قرار دیا ہے۔

وارنٹ کو پبلک کے لیے عام کرنے کی درخواست کا بظاہر مقصد یہ ہے کہ عوام اس بارے میں جان سکیں کہ سابق صد کے گھر کی تلاشی کے دوران تفتیش کار وہاں کیا کر رہے تھے۔

یہ چھاپہ اس تفتیشی کارروائی کا حصہ تھا جس میں خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ سابق صدر جنوری 2021 میں اپنا عہدہ چھوڑنے کے بعد وائٹ ہاؤس سے جاتے ہوئے کچھ دستاویزی ریکارڈ اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ ان میں سے کچھ کے بارے میں خیال ہے کہ محکمۂ انصاف کے مطابق ان میں سے کچھ مواد بہت اہم نوعیت کا تھا۔

اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ
اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ

اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ نے ایک نیوز کانفرنس میں بتایا ہے کہ انہوں نے ذاتی طور پر سابق صدر کے گھر کی تلاشی لینے کی منظوری دی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ محکمہ اس طرح کے فیصلے کو بہت سنجیدگی سے لیتا ہے اور جہاں تک ممکن ہو ایسے ذرائع تلاش کیے جاتے ہیں جن میں دخل اندازی کا پہلو کم سے کم ہو۔

گارلینڈ کا یہ بھی کہنا تھا کہ محکمۂ انصاف کی جانب سے تلاشی کے وارنٹ کو عام کرنے کی درخواست، سابق صدر کی طرف سے چھاپے کی عوامی تصدیق، اردگرد کے حالات اور اس معاملے میں بڑھتی ہوئی عوامی دلچسپی کو پیش نظر رکھتے ہوئے کی گئی ہے۔

اس معاملے سے باخبر ایک ذریعے نے 'رائٹرز 'کو بتایا کہ ایف بی آئی نے ٹرمپ کی رہائش گاہ میں چھاپے کے دوران وہاں سے تقریباً 10 بکس برآمد کیے۔

چھاپے کے وقت ٹرمپ فلوریڈا میں نہیں تھے اور انہیں اس کی اطلاع نیویارک میں ملی تھی۔

وارنٹ عام کرنے کی یہ درخواست اس وقت مجسٹریٹ جج بروس رین ہارٹ کے سامنے ہے، جنہوں نے یہ یقینی بنانے کے لیے وارنٹ کا جائزہ لیا کہ آیا محکمہ انصاف کے پاس تلاشی کے لیے کافی جواز موجود ہے یا نہیں؟

اپنے 'ٹروتھ سوشل نیٹ ورک' پر ایک بیان میں ٹرمپ نے کہا کہ "میرے وکلا اور نمائندے مکمل تعاون کر رہے تھے اور بہت اچھے تعلقات قائم ہو چکے تھے۔ حکومت جو چاہتی تھی، اگر وہ ہمارے پاس ہوتا تو وہ حاصل کر سکتی تھی۔"

غیر معمولی چھاپے کی یہ کارروائی ان بہت سی وفاقی اور ریاستی تحقیقات میں سے ایک ہے جن کا ٹرمپ کو اپنے دفتر اور نجی کاروباری امور میں سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان میں 2020 کے صدارتی انتخابات کو پلٹنے کے لیے ٹرمپ کے اتحادیوں کی ناکام کوشش کے بارے میں محکمہؐ انصاف کی الگ سے تحقیقات بھی شامل ہیں۔

ٹرمپ کی جانب سے اہم صدارتی ریکارڈز واپس نہ کرنے کے متعلق تحقیقات اس سال کے آغاز میں نیشنل آرکائیوز کی شکایت پر شروع ہوئی تھیں۔ جس میں کہا گیاتھا کہ سابق صدر ٹرمپ وائٹ ہاؤس چھوڑتے وقت کچھ اہم ریکارڈ نیشنل آرکائیوز کے حوالے کرنے کے بجائے انہیں اپنے ساتھ لے گئے تھے۔

صورتِ حال سے آگاہ ایک شخص کے مطابق، تلاشی سے چند ماہ قبل، ایف بی آئی کے ایجنٹوں نے ایک بند اسٹوریج روم میں بکسوں کی چھان بین کے لیے ٹرمپ کی رہائش گاہ کا دورہ کیا۔

ذرائع نے بتایا کہ ایجنٹوں نے مواد کا جائزہ لینے میں ایک دن گزارا۔ ایک دوسرے ذریعے نے جسے اس معاملے پر بریفنگ دی گئی تھی، رائٹرز کو بتایا کہ محکمٔۂ انصاف کے پاس مارالاگو کی نگرانی کی فوٹیج بھی ہے۔

اس رپورٹ کے لیے مواد رائٹرز سے حاصل کیا گیا۔

XS
SM
MD
LG