سی آئی اے رپورٹ، ممکنہ نتائج پر دھیان دینے کی ضرورت: ترجمان

وائٹ ہاؤس ترجمان نے کہا ہے کہ ’صدر کا خیال ہے کہ اِن حربوں کا استعمال ناجائز تھا‘، اور یہ کہ ’حاصل ہونے والے نتائج کی پرواہ کیے بغیر، یہ پروگرام اس قابل نہیں تھا کہ امریکہ کے اعلیٰ قومی اقدار کو گزند پہنچائی جائے‘

وائٹ ہاؤس کے ترجمان جوش ارنیسٹ نے پیر کے روز کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ’سی آئی اے‘ کے تفتیشی طریقوں سے متعلق رپورٹ کے جاری ہونے سے ممکنہ منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، جس کے بارے میں حکومت کئی ماہ غور کرتی رہی ہے۔

امریکی اہل کاروں نے متنبہ کیا ہے کہ منگل کو جاری کی جانے والی اس رپورٹ کے نتیجے میں دنیا بھر میں امریکی مفادات کے خلاف تشدد بھڑک سکتا ہے۔

گیارہ ستمبر 2001ء کو امریکہ پر ہونے والے دہشت گرد حملوں کے بعد یہ پہلی دستاویز ہے، جس میں القاعدہ کے مشتبہ دہشت گردوں کے خلاف سی آئی اے کی طرف سے اذیت کے مبینہ حربوں کے استعمال سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔

ارنیسٹ نے کہا ہے کہ صدر براک اوباما خیال کرتے ہیں کہ امریکی عوام کے لیے اہم بات ہوگی کہ وہ واضح طور پر مشاہدہ کرسکیں کہ دراصل کیا واقع ہوا۔

ترجمان نے کہا ہے کہ ممکنہ خدشات کےباوجود، وائٹ ہاؤس کے خیال میں، یہ بے انتہا ضروری ہوگا کہ رپورٹ کی ’ڈی کلاسیفائیڈ سمری‘ جاری کی جائے۔

یہ رپورٹ 480 صفحات پر مشتمل ہے، جس میں تفتیش کے انتہائی سخت طریقوں کی تفصیل پیش کی گئی ہے، جن میں نیند نہ کرنے دینا، اور ’واٹر بورڈنگ‘ (پانی میں ڈوبنے کا احساس دلانا) شامل ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ سی آئی اے کے کارندوں نے بیرون ملک پوشیدہ مقامات پر زیر حراست قیدیوں پر تفتیش کے یہ طریقے استعمال کیے۔


ارنیسٹ نے کہا ہے کہ’صدر کا خیال ہے کہ اِن حربوں کا استعمال ناجائز تھا‘، اور یہ کہ حاصل ہونے والے نتائج کی پرواہ کیے بغیر، یہ پروگرام اس قابل نہیں تھا جس میں امریکہ کے اعلیٰ قومی اقدار کو گزند پہنچائی جائے۔

ریپبلیکن قانون ساز مائیک راجرز اور سی آئی اے کے سابق سربراہ، مائیکل ہیڈن نے اختتام ہفتہ بیان میں متنبہ کیا ہے کہ رپورٹ سامنے آنے سے انتہا پسندوں کو امریکی شہریوں اور بیرون ملک تنصیبات پر حملوں کی شہ مل سکتی ہے۔

جمعے کے روز، دفتر خارجہ نے بتایا کہ وزیر خارجہ جان کیری نے رپورٹ جاری کرنے کی اس خاص ’ٹائمنگ‘ کی نوعیت کے وسیع تر خدشات پر سوال اٹھائے ہیں۔

خاتون ترجمان، جین ساکی نے دھیان مبذول کرایا کہ یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیئے کہ دنیا بھر میں کئی امریکی یرغمال بنے ہوئے ہیں۔