ایک سال قبل پھوٹنے والی کرونا کی عالمی وبا نے دنیا بھر میں ملازمتوں کے خاتمے یا انہیں تعطل کا شکار کر کے کارکنون کی آمدنی میں تین ٹریلیئن ڈالر کی کمی کی ہے۔
تنخواہوں اور اجرتوں کی صورت میں آمدنی ختم یا کم ہو جانے سے سب سے زیادہ نقصان خواتین، نوجوان اور معاشرے کے غیر محفوظ طبقوں کو اٹھانا پڑا۔
اقوام متحدہ کے مطابق کووڈ نائنٹین کے سبب ہونے والے اقتصادی اور مالی نقصانات کے نتیجے میں اب 23 کروڑ اور 50 لاکھ لوگوں کو انسان دوستی کے تحت امداد کی ضرورت ہے۔
معاشی مسائل کے اژدھے نے معاشرتی سطح پر عدم توازن، بد عنوانی، جھوٹی اطلاعات، نفرت انگیز بیان بازی اور عدم استحکام جیسے مسائل میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
علاوہ ازیں خواتین اور غیر محفوظ افراد کو بڑھتے ہوئے گھریلو تشدد کا بھی سامنا ہے۔
“Recovering better” from #COVID19 also requires more political and financial investment to strengthen conflict prevention. My full remarks to the @UN Security Council today: https://t.co/M5CtdCMlhO pic.twitter.com/Wk9mCqL8kF
— Rosemary A. DiCarlo (@DicarloRosemary) January 25, 2021
سیاسی اور امن سازی کے امور کی انڈر سیکرٹری جنرل روز میری ڈی کارلو نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ عالمی وبا نے خاص طور پر گزشتہ چار ماہ میں دنیا کے مسائل میں کئی گنا اضافہ کیا ہے اور اب اس وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد دس کروڑ کے قریب ہے۔
انہوں نے بتایا کہ عالمی وبا نے اقوام متحدہ کے امن کے قیام اور تنازعات کے حل تلاش کرنے کی کوششوں کو بھی ٹھیس پہنچائی ہے اور لڑائیوں کی وجوہات میں اضافہ کیا ہے۔
ایسے میں دنیا کے تنازعات میں شامل فریقوں کو جنگ بندی کا اعلان کر کے اس پر کار بند رہنا چاہیے تاکہ اقوام عالم اپنی توجہ کووڈ نائینٹین سے لڑنے پر مرکوز کریں۔ اس سلسلے میں اقوام متحدہ کی انڈر سیکرٹری نے کہا کہ ایک طرف تو کرونا کے ماحول میں افغانستان میں امن مذاکرات کے ذریعے جنگ کے خاتمے کی امید پیدا ہوئی لیکن دوسری جانب آرمینیا اور آزربائیجان میں تصادم میں شدت آئی۔
کرونا وائرس کی نئی اقسام کی صورت میں دنیا کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ روز میری کار لو کے بقول نہ صرف یہ کہ نئی اقسام زیادہ مہلک ثابت ہو رہی ہیں بلکہ دنیا کے مختلف ممالک میں صحت عامہ کے نظام اس وقت شدید ترین مشکلات سے دو چار ہیں۔