بیرونی تجارت سے غذائی قلت پر قابو پایا جاسکتا ہے

  • ندیم یعقوب

بیرونی تجارت سے غذائی قلت پر قابو پایا جاسکتا ہے

دنیا بھر میں افراط زر کی وجہ سے غربت میں اضافہ ہو رہا ہے جس کے باعث کروڑوں لوگوں کے لیے خوراک کا حصول مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ عالمی منڈی میں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے اناج اور زرعی اجناس کی قیمتیں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔ایک حالیہ اقصادی سروے کےمطابق گزشتہ سال کے دوران پاکستان میں غذائی اشیاء کی قیمتوں میں 10 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جس کے باعث خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد میں 2.2 فیصد اضافہ ہوا۔

خوراک کی فراہمی اور تحفظ کا ایک اہم پہلو مختلف ممالک کے درمیان تجارتی اور معاشی تعلقات ہیں ۔کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان میں خوراک کی فراہمی کا انحصار بہت حد تک پڑوسی ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات پر ہے۔

پچھلے کچھ مہینوں میں عرب ممالک میں سیاسی تبدیلیوں کی وجہ سے تیل کی قیمتیں تیزی سے بڑھی ہیں جس کا براہ راست اثر خوراک کی قیمتوں پر ظاہر ہوا۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کی ایک تحقیق کے مطابق گزشتہ چار برسوں میں پاکستان میں غذائی افراط زر میں 18 فیصد اضافہ ہوا ہے۔واشنگٹن میں ایک تھنک ٹینک ٕمڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ سے منسلک تجزیہ نگار ڈاکٹر زبیر اقبال کہتے ہیں کہ پاکستان میں تیل کی قیمتوں کا اثر کھاد کی قیمتوں پر ہوتا ہے جس سے زرعی اجناس کی قیمتیں متاثر ہوتی ہیں۔

کسی بھی ملک یا خطے میں خوراک کی فراہمی کو یقینی بنانے میں تجارت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ غریب اور پسماندہ ممالک میں خوراک کی پیداوار اور فراہمی کو یقینی بنانے میں کسی بھی خطے کے پڑوسی ممالک کے درمیان تجارتی اور معاشی تعلقات کلیدی سمجھے جاتے ہیں۔

کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ مستقبل میں جنوبی ایشیائی ممالک میں خوراک کی فراہمی اور تحفظ کا دارومدار ان کے تجارتی تعلقات پر ہوگا۔

جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے سینٹرل ایشیا کاکسس انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ڈاکٹر فریڈرک سٹارکہتے ہیں کہ صدیوں سے پاکستان اور ایشیائی ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کی وجہ سے خوراک میں کمی کا مسلہ پیش نہیں آیا اور کوئی وجہ نہیں کہ اب یہ مسئلہ پیدا ہو۔

ان کا کہناہے کہ بھارت ،پاکستان اور افغانستان کے لوگ اب خوراک کے مسائل میں مبتلا ہیں۔ مگر مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر کو 1525ءمیں جب وادی فرغانہ کے تربوز کی خواہش ہوئی تو وہ آگرہ میں میسر تھے ۔ اس نے سولہویں صدی میں خوارک کی فراہمی کو یقینی بنانے کا حل تلاش کر لیا تھا۔ اب لوگ ایسا کیوں نہیں کر سکتے جو بابر نے کئی سو سال پہلے کیا۔

موجودہ دورمیں جہاں ایک طرف ٕعالمی برادری خوراک کے لئے ایک دوسرے پر انحصار کرتی ہے وہیں ذرائع آمدورفت میں ترقی کی بدولت بہت سے ممالک لمبے فاصلوں کے باوجود کہیں آسانی سے آپس میں تجارت کر سکتے ہیں۔ اس کی تازہ مثال پاکستانی آموں کی امریکہ برآمد کے لئے معاہدہ ہے۔ واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے کے تجارتی امور کے انچارج عظمت رانجھا کہتے ہیں کہ زرعی اجناس کی برآمدات سے سب سے زیادہ فائدہ کسانوں کو ہوتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں جیسے جیسے زرعی اجناس کو ایندھن پیدا کرنے کے لئے استعمال کا رجحان بڑھے گا دنیا میں خوراک کی کمی کا بحران شدت اختیار کرے گا اور غریب ممالک میں بسنے والے لوگوں کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا ۔