مصر: حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان مذاکرات، مظاہرے جاری

مصر: حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان مذاکرات، مظاہرے جاری

مصر کے نائب صدر عمر سلیمان نے اخوان المسلمین سمیت حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کیے ہیں تاکہ ملک میں دو ہفتوں سے جاری حکومت مخالف احتجاج سے پیدا ہونے والے مسئلے کا حل تلاش کیا جا سکے۔
اُنھوں نے اتوار کو اخوان المسلمین کے رہنماؤں کے علاوہ حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی سیکولر جماعتوں اور آزاد سیاسی شخصیات سے بھی ملاقاتیں کیں۔

ایک سرکاری ترجمان نے ملاقات کے حوالے سے کہا کہ نے حکومت آئینی اصلاحات متعارف کرانے کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دینے پر اتفاق کیا ہے۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ حکومت نے میڈیا پر پابندی اٹھانے اور حالات کے نزاکت کے مطابق بتدریج ایمرجنسی ہٹانے پر بھی اتفاق کیا ہے۔
امریکی خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اخوان المسلمین صدر حسنی مبارک کے 30 سالہ اقتدار کے خاتمے کے اپنے مطالبے پر ڈٹی ہوئی ہے۔

مصر میں حکومت کے خلاف گذشتہ ماہ شروع ہونے والے احتجاج کے بعد حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان یہ پہلے مذاکرات ہیں۔

اتوار کو بھی ہزاروں حکومت مخالف مظاہرین مسلسل 13 ویں روز دارالحکومت قاہرہ کے التحریر اسکوائر میں جمع ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ صدر حسنی مبارک کے مستعفی ہونے تک احتجاج جاری رکھیں گے۔ متعدد افراد کے مطابق حکومت دکھاوے کے اقدامات کرکے ان کے احتجاج کی شدت میں کمی لانا چاہتی ہے۔ قاہرہ کے علاوہ مصر کے ایک اور بڑے شہر اسکندریہ میں بھی حکومت مخالف مظاہرے ہوئے۔

اتوار کوحکومت نے قاہرہ میں چند بینکوں کو مختصر وقت کے لیے کام کی اجازت دی۔

ملک گیر احتجاجی مظاہروں کے جواب میں صدر مبارک نے اعلان کیا ہے کہ وہ ستمبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے۔
موجودہ صورت حال میں ایک اور اہم پیش رفت ہفتہ کے روز ہوئی جب حکمران جماعت نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کی مجلس عاملہ نے مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔ استعفے دینے والوں میں مصری صدر کے صاحبزادے جمال بھی شامل ہیں تاہم صدر حسنی مبارک بدستور جماعت کے سربراہ کے عہدے پر فائز ہیں۔
دارالحکومت قاہرہ کے التحریر اسکوائر میں ایک ہفتے سے زائد عرصے سے احتجاج کرنے والے حکومت مخالف مظاہرین نے حکمران جماعت کی مجلس عاملہ کے مستعفی ہونے کو بے معنی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔
اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق احتجاجی مظاہروں کے آغاز کے بعد پیش آنے والے واقعات میں تقریباً 300 سے زائد افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں۔