برطانیہ: 'ہم جنس پرستوں کی شادی' کا قانون اسمبلی میں پیش

ایسے مذہبی ادارے جو 'ہم جنس پرستوں کی شادی' چرچ میں ادا کرنے کے حق میں ہیں، انھیں اس قانون کے منظور ہونے کے بعد حکومت کی جانب سے تحفظ فراہم ہو جائے گا ۔
برطانوی حکومت نے 'ہم جنس پرستوں کی شادی' کا قانونی مسودہ جمعہ کے روز پارلیمنٹ ( ایوان ِبالا) میں بحث کے لیے پیش کر دیا ہے۔
اس قانون کی منظوری کے بعد برطانیہ میں ہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی طور پر تسلیم کر لیا جائے گا اور ایسے شادی شدہ جوڑے کو برطانیہ میں ایک سول شادی شدہ جوڑے کے برابر حقوق حاصل ہو جائیں گے۔ اس کے علاوہ وہ اس بات کے مجاز ہوں گے کہ اپنی شادی کی تقریب باقاعدہ مذہبی رسومات کے ساتھ چرچ میں ادا کر سکیں۔
ایسے مذہبی ادارے جو 'گے میرج' چرچ میں ادا کرنے کے حق میں ہیں، انھیں اس قانون کے منظور ہونے کے بعد حکومت کی جانب سے تحفظ فراہم ہو جائے گا۔
اس قانون کی رُو سے'ہم جنس جوڑا' سول شادی کرنے کے علاوہ چرچ میں بھی مذہبی رسومات کے ساتھ شادی کرنے کا مجاز سمجھا جائے گا جبکہ ایسا جوڑا جس کی حیثیت موجودہ سول پارٹنر کی ہے وہ بھی چرچ میں جا کر شادی کر سکے گا۔
برطانیہ میں 'گے میریج' کی ممانعت نہیں ہے۔ 2005 میں ایک قانون کے تحت ہم جنس شادی کو باقاعدہ 'سول پارٹنر' کی حیثیت سے تسلیم کیا جا چکا ہے۔ اس قانون کی منظوری کے بعد ایسے جوڑے کو برطانیہ میں ایک شادی شدہ جوڑے کی طرح کئی معاملات میں یکساں درجہ دیا گیا جن میں رہائش، پینشن اور امیگریشن کے حقوق وغیرہ شامل ہیں۔
دسمبر کے مہینے میں برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے 'ہم جنس پرستوں کی شادی' کو سول شادی کا درجہ دینے کا اعلان کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ شادی کے فریضہ کے قائل ہیں اور چاہتے ہیں کہ 'گے میرج' کرنے والے جوڑے کو مذہبی اداروں میں شادی کرنے سے دور نہ رکھا جائے، مذہبی اداروں کو آذادی حاصل ہو گی کہ وہ ایسی شادیوں کو چرچ میں منعقد کرنے کی اجازت دیں یا نہ دیں۔
وزیر اعظم کے بیان کے بعد مذہبی اداروں کی جانب سے مخالف ردعمل سامنے آیا تھا ۔ کیتھولک فرقے اور رومن فرقے سے تعلق رکھنے والے مذہبی پیشواؤں کی جانب سے کہا گیا کہ، 'گے میرج' کا قانون خاندانی نظام کی جڑوں کو ہلا کر رکھ دے گا جبکہ قانون ساز اداروں کی جانب سے اس قانون کی منظوری سول میرج کے قانون کی اہمیت کو کم کر دے گا۔ اس قانون کی منظوری کے لیے برطانوی حکومت کو ان اداروں کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ایوان بالا میں موجود حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعت' ٹوری ' کے سو سے زائد نمائندے اس قانوں کی مخالفت کر رہے ہیں جن میں حکومت کی اپنی سیاسی جماعت ' کنزرویٹو' کے بہت سے وزرا بھی شامل ہیں۔
جبکہ برطانوی حکومت کی اتحادی جماعتیں' لیبرل' اور' لیبرل ڈیموکریٹ' کے رہنماؤں نے اس قانون کی حمایت میں ووٹ ڈالنے کا عندیہ دیا ہے۔
برطانوی وزیر برائے ثقافتی امور' ماریہ کلر' نے 'ہم جنس پرستوں کی شادی' کا قانونی مسودہ ایوان بالا میں پیش کئے جانے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ 'گے میرج' کرنے والے جوڑے کو بھی عام شادی شدہ جوڑے کی طرح معاشرے میں برابری کے حقوق دیئے جانا ضروری ہیں۔ حکومت کی جانب سے کسی مذہبی ادارے پر زبردستی نہیں کی جائے گی۔ بلکہ ہم جنس شادی کی حمایت کرنے والے چرچ کو اس شادی کی ادائیگی کے لیے حکومت کی جانب سے تحفظ حاصل ہو جائیگا۔ اور انھیں اس بات سے روکنے کا مطلب انھیں ان کے مذہبی حق سے محروم کرنا ہو گا۔
تاہم ان کا ماننا تھا کہ ' چرچ آف انگلینڈ' اور ' چرچ آف والز' کے لیے اس قانون پر عمل درآمد کرنے کا معاملہ دیگر مذہبی اداروں کی نسبت مختلف ہے۔ ان کا اپنا ایک ضابطئہ اخلاق ہے جس کے مطابق، اِن دونوں چرچ میں صرف ایک مرد اور عورت کی ہی شادی ہو سکتی ہے لہذا ان دونوں چرچ میں ہم جنس شادی کی تقریب کرنا غیر قانونی خیال کیا جائے گا۔
اس قانوں کی حمایت ملک کی کئی مذہبی جماعتوں نے بھی کی ہے۔ جن میں کوئیکرز، یونی ٹرینز اور اعتدال پسند یہودی فرقے بھی شامل ہیں۔
اس متنازع قانون کے بارے میں ٹوری پارٹی کے وزیر 'اسٹیورٹ ' کا کہنا تھا کہ،"ایوان بالا کے آدھے سے ذائد ممبران اس قانون کے مخالف ہیں اس صورت حال میں ڈیوڈ کیمرون بہت کمزور دکھائی دیتے ہیں"۔
قانون کی حتمی منظوری وزراء کی رائے جاننے کے بعد دی جائے گی۔ اس سلسلے میں مزید ایک بار 5 فروری کے روز بات چیت کےدوسرے دور کے بعد وزراء اس قانون کی' مخالفت' یا 'حق' میں اپنا ووٹ ڈالیں گے۔ ڈیوڈ کیمرون نے اپنی سیاسی جماعت کے وزیروں کو آذادانہ حق ِ رائے دہی استعمال کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔
اگرچہ برطانیہ میں ہم جنس شادی کی ممانعت موجود نہیں ہے اور ایسے جوڑوں کو سول پارٹنرشپ کے زمرے میں شامل کیا جاتا ہے تاہم موجودہ قانون میں انھیں ایک شادی شدہ جوڑے کا درجہ دینے کے کیے قانون سازی کی جارہی ہے۔