پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کے سربراہ اور سابق وزیرِاعظم عمران خان کی جانب سے قومی اسمبلی میں مشروط واپسی کے بیان کو سیاسی حلقوں کی جانب سے اہمیت کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے اسمبلی واپس آنے سے پارلیمنٹ کی قانونی حیثیت میں اضافہ ہوگا اور حکومت مخالف تحریک چلنے میں بھی کمی آئے گی۔
اگرچہ حکومت کی جانب سے عمران خان کے اسمبلی میں واپسی کےبیان پر فوری طور پر کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ تاہم اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے نجی نیوز چینل 'ڈان نیوز' کو اتوار کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ جمہوریت کے مفاد میں وہ چاہتے ہیں کہ پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں واپس آئے۔
انہوں نے کہا کہ یہ اچھی رِیت نہیں ہے کہ آپ اکثریت کھو دیں تو کہیں کہ پارلیمنٹ میں نہیں بیٹھوں گا۔ جمہوری رویہ یہ ہے کہ آپ حزب اختلاف کا کردار ادا کریں جواتنا ہی اہم ہے جتنا حکومت کا ہے۔
خیال رہے کہ سابق وزیرِاعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد تحریک انصاف کے 123 اراکین اسمبلی نے مشترکہ طور پر قومی اسمبلی سے استعفے دے دیے تھے۔
'حکومت عمران خان کے قبل از وقت انتخابات کے مطالبے کو ماننے کو تیار نہیں'
دوسری جانب مبصرین عمران خان کی جانب سے پارلیمنٹ میں واپسی کے بیان کو معنی خیز قرار دے رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق پی ٹی آئی اراکین کی واپسی حکومت اور عمران خان دونوں کے لیے جیت کی صورت ہوگی اور اس سے ملک میں سیاسی استحکام ممکن ہو سکے گا۔
وہ کیا عوامل ہیں جس پر عمران خان قومی اسمبلی میں واپس جانے کا سوچنے پر مجبور ہوئے ہیں؟ اس پر تجزیہ کار کہتے ہیں کہ انتخابات کا فوری انعقاد نہ ہوتا دیکھ کر پی ٹی آئی کو اپنی حکمتِ عملی میں تبدیلی پر غور کر نا پڑ رہا ہے۔
SEE ALSO: لانگ مارچ کا عندیہ: 'عمران خان چاہتے ہیں کہ اسی برس الیکشن ہو جائیں'تجزیہ کار سلیم بخاری کہتے ہیں کہ عمران خان کی باتیں جمہوری و معاشرتی روایات سے بہت دور ہوتی ہیں، اسی بنا پر ان کے درجنوں بیانیے دفن ہو چکے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا چوں کہ حکومت عمران خان کے قبل از وقت انتخابات کے مطالبے کو ماننے کو تیار نہیں ہے اور وزیرِاعظم شہباز شریف کی لندن میں مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف سے ہونے والی ملاقات میں بھی یہی اتفاق ہوا ہے کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے گی۔لہٰذا پی ٹی آئی سربراہ اب اپنے بیانیے اور حکمتِ عملی میں تبدیلی لا رہے ہیں۔
ان کے بقول عمران خان اپنی روایات کے مطابق اب یو ٹرن لے رہے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پی ٹی آئی کے اندر بھی بہت سے اراکین اسمبلی استعفے نہیں دینا چاہتے تھے۔
پاکستان میں سیاسی امور پر نظر رکھنے والے ادارے پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ عمران خان کا اندازہ تھا کہ وہ اسمبلی سے مستعفی ہوجائیں گے اور جلسے جلوس کےذریعے اتنا دباؤ بڑھا دیں گے کہ حکومت کے پاس قبل از وقت انتخابات کے علاؤہ کوئی چارہ نہیں رہے گا لیکن ان کی یہ توقع پوری نہیں ہوئی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ انہیں یہ احساس ہورہا ہے کہ قومی اسمبلی کے فورم پر نہ ہونا ان کے لیےسیاسی نقصان کا باعث بن رہا ہے اور اگر وہ بدستور اسمبلی سے باہر رہتے ہیں تو نگران حکومت کے قیام سمیت بہت سی اہم تقرریاں ان کی مشاورت کے بغیر ہی ہوجائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کے اندر بھی استعفوں کے حوالے سے رائے منقسم ہے اور اگر واپسی کا راستہ موجود ہے تو انہیں قومی اسمبلی واپس آجانا چاہیے۔
کیا حکومت مبینہ سائفر کی تحقیقات کرائے گی؟
عمران خان نے پانچ ماہ بعد قومی اسمبلی میں واپسی کو اس مبینہ سازش کی تحقیقات سے مشروط کیا ہے جو ان کے بقول ان کی حکومت کے خاتمے کی وجہ بنی۔
انہوں نے اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ''اگر سائفر کی تحقیقات کا آغاز کیا جائے تو وہ پی ٹی آئی کے جمع کرائے گئے استعفوں کو واپس لینے پر غور کریں گے۔''
واضح رہے کہ پی ٹی آئی کا یہ دعویٰ ہے کہ امریکہ نے پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر عمران خان کی حکومت کا خاتمہ کیا اور وہ اس کا جواز امریکہ میں اس وقت کے پاکستانی سفیر اسد مجید کی امریکی عہدیدار ڈونلڈ لو سے ملاقات پر مبنی سائفر کو قرار دیتی ہے۔البتہ امریکہ اس دعوے کی تردید کرچکا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
عمران خان کی جانب سے اس مشروط واپسی کے عندیہ پر یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا حکومت عمران خان کے مطالبے پر مبینہ سائفر کی تحقیقات کرائے گی؟ اس بارے میں سلیم بخاری کہتے ہیں کہ عمران خان کا امریکی سازش کے ذریعے حکومت کی تبدیلی کا بیانیہ بھی اب عوام میں اہمیت نہیں رکھتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اب جب یہ طے ہو چکا ہے کہ سائفر کچھ نہیں ہے اور امریکہ کی جانب سے بھی متعدد بار اس کی تردید آ چکی ہے جب کہ پاکستان کی فوج بھی کہہ چکی ہے کہ اس تحقیقات میں مداخلت کے شواہد نہیں ملے ہیں تو پی ٹی آئی کے سربراہ کس قسم کی تحقیقات چاہتے ہیں۔
احمد بلال محبوب کےمطابق عمران خان کے لیے فوری طور پر اسمبلی میں واپس آنا مشکل ہو گا اور وہ یہ راستہ بتدریج طے کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو بھی چاہیے کہ عمران خان کے اسمبلی واپسی کے بیان کو خوش آمدید کہے اور ان کے تحقیقات کے مطالبے پر اگر نئی تحقیقات نہیں کرائی جاتی تو پرانی تحقیقات سے انہیں آگاہ کیا جائے۔
وہ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے اسمبلی واپس آنے سے پارلیمنٹ کی قانونی حیثیت میں اضافہ ہوگا اور حکومت مخالف تحریک چلنے میں بھی کمی آئے گی۔
سلیم بخاری بھی سمجھتے ہیں کہ حکومت پی ٹی آئی کی اسمبلی میں واپسی چاہتی ہے تاہم وہ کہتے ہیں کہ اس کےلیے ضروری نہیں کہ حکومت عمران خان کی شرائط بھی مانے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان سیاسی اور جمہوری طریقے اپنانے کو تیار نہیں ہیں اور چاہتے ہیں کہ انہیں ان کی مرضی کی بساط بچھا کر دی جائے تو وہ پارلیمنٹ واپس آئیں گے۔
کیا عمران خان کا بیان چیف جسٹس کے مشورے کا جواب ہے؟
سابق وزیرِاعظم عمران خان کی جانب سے پارلیمنٹ میں واپسی کا بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب گذشتہ ہفتے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ایک کیس کی سماعت کے دوران پی ٹی آئی کو اسمبلی واپس جاکر کردار ادا کرنے کا مشورہ دیا تھا۔
اس مشورے کے بعد پی ٹی آئی سربراہ کے اس بیان پر سلیم بخاری کا کہنا تھا کہ عمران خان اسمبلی میں واپسی کا جواز چاہتے ہیں اور ان کا یہ بیان چیف جسٹس کی جانب سے پی ٹی آئی کو پارلیمنٹ میں واپس جاکر کردار ادا کرنے کی تجویز کے جواب میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ انتخابات کا فوری انعقاد نہ ہوتا دکھائی دینا عمران خان کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ اسمبلی میں واپس آئیں۔
SEE ALSO: سیاسی بے چینی کا خاتمہ؛ کیا صدر علوی کی کوششیں کامیاب ہو سکیں گی؟احمد بلال محبوب بھی کہتے ہیں کہ عمران خان کی جانب سے اسمبلی واپسی کا عندیہ چیف جسٹس کے بیان سے براہ راست بنتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ یہ عدلیہ کا کام نہیں ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں کو مشورہ دے لیکن چوں کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے پی ٹی آئی کو اسمبلی میں واپس جا کر کردار ادا کرنے کا کہا ہے تو عمران خان نے اس کے جواب میں یہ بیان دیا ہے۔
خیال رہے کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر راجا پرویز اشرف نے اراکینِ اسمبلی کے استعفوں کی تصدیق کے لیے انہیں طلب کیا تھا، تاہم پی ٹی آئی اراکین کی جانب سے پیش نہ ہونے کے فیصلے کے بعد استعفوں کی منظوری کا عمل تاخیر کا شکا ر ہا ہے۔
جولائی کے اواخر میں اسپیکر اسمبلی نے مرحلہ وار استعفوں کی منظوری کے عمل کا آغاز کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے 11 اراکین اسمبلی کے استعفے منظور کرلیے تھے۔اسپیکر کے اس اقدام پر پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا تاہم عدالت کا کہنا ہےکہ اس معاملے میں مداخلت نہیں کرسکتے۔