رسائی کے لنکس

نئے لیکن تجربہ کار وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو کن معاشی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا؟


اسحاق ڈار (فائل فوٹو)
اسحاق ڈار (فائل فوٹو)

تقریباً 5 سال کی خود ساختہ جلاوطنی ختم کرکے پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اور مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما اسحاق ڈار وطن واپس آ گئے ہیں اور مفتاح اسماعیل کے عہدے سے مستعفی ہونے کے بعد وہ وزیر خزانہ کا چارج سنبھالیں گے۔

اسحاق ڈار موجودہ اتحادی حکومت کے دوسرے وزیر خزانہ ہوں گے لیکن وہ ایسے وقت میں وزیر خزانہ کا عہدہ سنبھالیں گے جب پاکستان کی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے اور ملک کو تاریخی مہنگائی کا سامنا ہے جبکہ سیلاب نے جہاں معیشت کو درپیش چیلنجز کو اور بھی بڑھا دیا ہے وہیں قرضوں کے بوجھ اور روپے کی گرتی ہوئی قدر نے صورتحال کو مزید گھمبیر کررکھا ہے۔

روپے کی بڑھتی ہوئی بے قدری کا چیلنج سب اہم

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ماضی میں تین بار وزیر خزانہ رہنے والے تجربہ کار اسحاق ڈار کو معیشت کو درست راستے پر لانے کے لیے اس بار گزشتہ ادوار سے کہیں بڑے چیلنجز کا سامنا ہوگا۔

عارف حبیب سیکیورٹیز میں معاشی تجزیہ کار ثناء توفیق نے کہا کہ ان کے خیال میں روپے کی بڑھتی ہوئی بے قدری کو کم کرنا ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ ثناء توفیق کا کہنا ہے کہ روپے کی قدر میں اس قدر کمی کی سب سے اہم وجہ پاکستان کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی ہے۔اگرچہ آئی ایم ایف کی جانب سے ملنے والے قرضے کی نئی قسط کے باوجود فی الحال ایسا نہیں ہوسکا ہے لیکن امید ظاہر کی جارہی تھی کہ غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کچھ حد تک اضافہ ہوگا جیسا کہ ورلڈ بینک اور دوست ممالک کی جانب سے وعدہ کی گئی امداد ابھی آنا باقی ہے۔ایسے میں معاشی صورتحال کا سنبھالنا فی الحال مشکل ہی لگ رہا ہے۔

کیا روپے کی قدر پھر سے مصنوعی طور پر بڑھائی یا برقرار رکھی جائے گی؟

ثناء توفیق کا کہنا تھا کہ اسحاق ڈار کے وزیر خزانہ بننے سے خدشہ ہے کہ ڈالر کی قیمت ایک بار پھر طلب اور رسد سے طے ہونے کے بجائے حکومت کی جانب سے مینیج کی جانے لگے گی ، کیونکہ ماضی میں ان کی شہرت یہی رہی ہے۔ اس کا اندازہ آج روپے کی قدر میں اضافے سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسحاق ڈار کے وزیر خزانہ بننے کی خبروں پر ایکسپورٹرز کی جانب سے اپنے رکے ہوئے ڈالرز منگوائے گئے۔ اور یوں مارکیٹ میں پیر کے روز وقتی طور پر ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں اضافہ دیکھا گیا۔ لیکن یہ چیلنج تو بہرحال برقرار رہے گا کہ کس طرح پاکستان اپنے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کرتا ہے۔ اگرچہ درآمدات کم ہونے سے جاری کھاتوں کا خسارہ کم ہونا تو شروع ہوگیا ہے لیکن عالمی کساد بازاری کی صورتحال میں برآمدات کو بڑھاکر ڈالر اکھٹے کرنا بھی چیلنج سے کم نہیں۔

سیلاب کے بعد پیدا شدہ صورتحال میں محصولات کی کمی کو کیسے پورا کیاجائے گا؟

ثناء توفیق کے خیال میں حالیہ طوفانی بارشوں اور سیلاب سے پہنچنے والے نقصانات کے باعث حکومت کے محصولات میں کمی دیکھی جائے گی۔جس سے بجٹ خسارے میں توقع سے زیادہ اضافے کا خدشہ ہے۔ جبکہ سیلابی صورتحال کی وجہ سے دوسری جانب حکومت ملک میں سماجی تحفظ کے پروگرامز کے تحت اخراجات میں کمی کی متحمل نہیں ہوسکتی کیونکہ سیلاب سے شدید متاثر ہونے والے انتہائی غریب طبقے کو اس وقت بہت زیادہ امداد کی ضرورت ہے ۔سیلاب کے بعد پیدا شدہ خراب صورتحال کے باعث سماجی تحفظ کے شعبے میں مزید اضافے کی ضرورت کے باعث یہاں بھی اخراجات کا دباؤ زیادہ ہوگا۔یہاں نئے وزیرخزانہ اسحاق ڈار کی صلاحیتوں کا امتحان ہوگا کہ وہ کس طرح محصولات میں کمی کو پورا کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت سیلاب میں گھرے لوگوں کی مدد کو بھی جاری رکھتے ہیں۔

انہوں نے اس سے اتفاق کیا کہ اسحاق ڈار کی ماضی میں شہرت یہی رہی ہے کہ محصولات کی کمی کو جنرل سیلز ٹیکس میں اضافے جیسی اسکیموں سے پوری کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس بار بھی یہی امکان ہے کہ محصولات کو پورا کرنے کے لیے سیلز ٹیکس یا انکم ٹیکس میں مزید اضافہ کیا جائے یا اس مقصد کے لیے کوئی اور راستہ اختیار کیا جائے کیونکہ آئی ایم ایف سے قرض لیتے وقت حکومت نے اس سال 7200 ارب روپے کے ٹیکس جمع کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن اب اس کے لیے کیا راستہ اختیار کیا جاتا ہے وہ دیکھنا باقی ہے۔جب کہ یہ بھی دیکھنا باقی ہے کہ اب تک پیٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس نہیں لگایا گیا ہے۔لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ حالیہ سیلاب کے بعد آئی ایم ایف سے مذاکرات کے نتیجے میں محصولات کے اس ہدف پر نظر ثانی کرکے اسے کچھ نیچے لایا جاسکے۔

سب سے اہم سوال: مہنگائی کے جن پر کیسے قابو پایا جائے گا؟

اسی طرح مہنگائی میں کمی اسحاق ڈار کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگا جس کا تعلق مسلم لیگ ن کی آئندہ الیکشن میں کامیابی یا ناکامی سے جُڑا ہوا ہے۔ ثناء توفیق کا کہنا ہے کہ حکومتی اقدامات اور مرکزی بینک کی جانب سے شرح سود بڑھانے سے اب طلب میں تو خاطر خواہ کمی واقع ہوگئی ہے لیکن دوسری جانب رسد میں بھی کمی دیکھی جارہی ہے۔ اور سیلاب کے باعث اس میں مزید کمی دیکھی گئی ہے۔ غذائی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کو بہت تیزی سے محسوس کیا جارہا ہے۔ جہاں ملک میں گند م جیسی بنیادی غذائی جنس کی قیمت میں تیزی سے اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ نہ صرف گندم بلکہ مرغی ، انڈے، ٹماٹر، آلو حتیٰ کہ سبزیوں سمیت کھانے پینے والی اشیاء کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا ہے۔یعنی ملک میں مہنگائی میں تیزی کی اصل وجہ کھانے پینے کی اشیاء میں ہونے والی مہنگائی بنی ہوئی ہے۔ان کے خیال میں پاکستان کو بھارت سے تجارت کھول کر سبزیاں درآمد کرنا ہوں گی لیکن اس کا انحصار اس پر ہے کہ ملک کی خارجہ پالیسی کس سمت میں گامزن رہتی ہے۔

ایک اور تجزیہ کار، شہریار بٹ نے نشاندہی کی کہ اسحاق ڈار کے لیے الیکشن سے قبل انتہائی کم وقت میں مہنگائی پر قابو پانا ممکن نظر نہیں آتا۔کیونکہ آئندہ انتخابات میں صرف 10 ماہ رہ گئے ہیں۔ ان کے خیال میں اسحاق ڈار کو انہی چیلنجز کا سامنا کرنا ہوگا جو چار ماہ سے مفتاح اسماعیل کررہے تھے۔ لیکن اس میں سیلاب کی صورتحال نے ان چیلنجز میں اضافہ کردیا ہے۔ آئی ایم ایف سے ہونے والے معاہدے کے تحت اگلے سال تک غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 16 ارب ڈالرز تک کرنے ہیں جس کے لیے ہمیں اپنے ذخائر میں اضافے کی حکمت عملی اپنانی ہوگی لیکن یہ موجودہ صورتحال میں کافی مشکل لگتا ہے۔ دوسرا یہ کہ دیکھنا یہ ہوگا کہ اسحاق ڈار روپے کی گرتی ہوئی قدر کو کیسے سنبھالا دیتے ہیں۔1998 میں پاکستان کی جانب سے ایٹمی دھماکے کرنے اور پھر 2013 میں مسلم لیگ ن کی جانب سے حکومت سنبھالنے کے بعد وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت کو کم رکھا تھا۔ اس بار وہ کیا کرسکتے ہیں، یہ بھی دیکھنا باقی ہے۔

ملک کے دیوالیہ ہونے کے خطرات اب بھی باقی ہیں

شہریار بٹ نے بھی کہا کہ اس وقت ملک میں مہنگائی، خطے کے تمام ممالک سے زیادہ ہے۔ ملک میں گزشتہ ماہ مہنگائی کی شرح میں پچھلے سال اگست ہی کے مقابلے میں 27.3 فیصد اضافہ ہوا تھا۔ اگست میں مہنگائی کی شرح میں ہونے والا یہ اضافہ 49 سال میں سب سے تیز رفتار اضافہ تھا۔

شہریار بٹ نے مزید بتایا کہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے اور پاکستانی بانڈز پر شرح سود میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ اس لیے اب بھی ملک کے دیوالیہ ہونے کے خطرات منڈلارہے ہیں۔

"مسلم لیگ ن معیشت کو بچانے کے لئے غیرروایتی فیصلوں کی متحمل نہیں ہوسکتی"

شہریار بٹ کے مطابق معیشت کی موجودہ صورتحال کو غیر روایتی اور غیر مقبول فیصلوں کی ضرورت ہے جو مسلم لیگ ن کی جماعت فی الحال برداشت کرنے کے قابل نہیں کیونکہ چند ماہ کے بعد انتخابات آنے والے ہیں۔مقبول فیصلے یعنی بجلی، گیس پر سبسڈیز دینے کے فیصلے اس لیے نہیں لیے جاسکتے کیونکہ پاکستان اس وقت آئی ایم ایف پروگرام میں ہے۔اور اس وقت حقیقت میں پاکستان میں بجلی، گیس انتہائی مہنگی ہیں۔

دوسری جانب حکومت کے پاس اپنا ریوینو بڑھانے کے لیے بالواسطہ ٹیکس بڑھانے کے سوا کوئی چارہ نظر نہیں آتا کیونکہ وہ تاجر وں پر ٹیکس لگانے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے کیونکہ وہ حکمران جماعت کا اہم ووٹ بینک ہیں۔ لیکن حکومت کے لیے یہ اچھی خبر ہے کہ دنیا میں تیل کی قیمت کم ہورہی ہے اس کے ساتھ اگر نئے وزیر خزانہ ڈالر کی قیمت میں کمی لانے میں کامیاب ہوگئے تو پھر عوام کو ریلیف دینے کی کوئی جگہ بن سکتی ہے اور تبھی یہ حکومت آئندہ الیکشن میں عوام کے پاس کسی فیس سیونگ کے ساتھ جانے کے قابل ہوسکے گی۔

معیشت کو بچانا اب کسی شخصیت کے بس کی بات نہیں رہی


ایک اور سینئر ماہر اقتصادیات قیصر بنگالی کا الگ خیال ہے، انہوں نے کہا کہ معیشت کے موجودہ چیلنجز سے نمٹنا کسی ایک شخصیت کے لیے ممکن نہیں رہا۔ مسئلہ یہ نہیں کہ مفتاح اسماعیل ہوں یا اسحاق ڈار، ملک کو درپیش معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے پوری حکومت کو ایک اور ریاستی سطح پر نمٹنا ہوگا۔

قیصر بنگالی نے مزید کہا کہ تکنیکی طور پر پاکستان کی معیشت پہلے ہی دیوالیہ ہو چکی ہے اور اب کسی قسم کا استحکام لانے کے لیے حکومت کو اپنے غیر ترقیاتی اخراجات بشمول دفاعی اخراجات میں بہت زیادہ کمی لانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرنے کے لیے پاکستان کو درآمدات میں بھی بڑی کٹوتی کی ضرورت ہے کیونکہ برآمدات مختصر عرصے میں نہیں بڑھ سکتیں۔اگر درآمدات پر قابو نہ پایا گیا اور برآمدات نہیں بڑھائی گئیں تو اسحاق ڈار ہوں یا کوئی اور جاری کھاتوں کے خسارے پر قابو پانا ممکن نہیں ، اگر جاری کھاتوں کا خسارہ کم اور زرمبادلہ کے ذخائر نہ بڑھے تو ڈالر کی قیمت بڑھتی رہے گی اور روپے کی قدر گرنے کا سلسلہ جاری رہے گا، اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ملک میں مہنگائی بدستور بڑھتی ہی رہے گی۔

ادھر وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے استعفے اور اسحاق ڈار کے وطن واپس آکر وزارت خزانہ سنبھالنے کی خبر سامنے آنے کے بعد پیر کے روز اوپن مارکیٹ میں امریکی ڈالر کی قیمت میں 7روپے تک کی کمی دیکھی گئی۔ جبکہ انٹر بینک میں بھی ایک ڈالر کی قیمت میں 239 روپے 65 پیسے سے کم ہوکر 237 روپے 2 پیسے رہ گئی۔

ادھر کاروباری ہفتے کے پہلے روز اسٹاک مارکیٹ میں بھی کئی روز بعدتیزی دیکھی گئی اور مارکیٹ میں 531 پوائنٹس کا بڑا اضافہ ہوا۔ کاروبار کے اختتام پر پاکستان اسٹاک مارکیٹ کا 100 انڈیکس 41 ہزار 151 پر پہنچ گیا۔ مگر یہ تبدیلی وقتی ہے یا مستقل، اس کا اندازہ کچھ دن بعد ہی ہو سکے گا۔

XS
SM
MD
LG