جوہری معاہدہ: ایران نے مذاکرات اور سعودی عرب کو شامل کرنے کی تجویز رد کر دی

فائل فوٹو

ایران نے فرانس کے صدر کی اس تجویز کو مسترد کر دیا ہے جس میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں مزید ممالک کے اضافے اور مذاکراتی عمل میں سعودی عرب کو بھی شامل کرنے پر زور دیا گیا تھا۔

ایران کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق وزارتِ خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادے کا ہفتے کو کہنا تھا کہ جوہری معاہدہ ایک کثیر الجہتی بین الاقوامی معاہدہ ہے جس کی منظوری اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے دی تھی۔

ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ جوہری معاہدے سے متعلق نہ تو مزید مذاکرات کی گنجائش ہے اور نہ ہی اس میں کسی اور ملک کو شامل کیا جا سکتا ہے۔

خیال رہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا یہ اصرار رہا ہے کہ خلیجی ممالک کو بھی ایسے مذاکرات کا حصہ ہونا چاہیے جس میں ایران کے میزائل پروگرام اور خطے میں اس کی پراکسی جنگوں سے متعلق معاملات زیرِ بحث لائے جائیں۔

الجزیرہ ٹی وی کے مطابق جمعے کو فرانسیسی صدر ایمانوئل میخواں نے ایک بیان میں کہا تھا کہ 2015 کے جوہری معاہدے میں خطے کے کسی اور ملک کو شامل نہ کرنے کی غلطی کا اب ازالہ کرنا چاہیے۔

خیال رہے کہ سابق امریکی صدر براک اوباما کے دور میں ایران کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے میں امریکہ، برطانیہ اور یورپی ممالک ہی شامل تھے۔ 2018 میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاہدے کو ناقص قرار دیتے ہوئے ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کر دی تھیں۔

ایران نے بھی جوہری معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے جوہری پروگرام کو آگے بڑھانے کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ تاہم ایران کا یہ مؤقف تھا کہ وہ جوہری توانائی صرف پرامن مقاصد کے لیے حاصل کر رہا ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اگر ایران معاہدے کی مکمل طور پر پاسداری کرتا ہے تو امریکہ معاہدے میں دوبارہ شامل ہو سکتا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

ایران جوہری معاہدے پر کسی معجزے کی توقع نہ کی جائے

میخواں کا مزید کہنا تھا کہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے متعلق نئے مذاکرات میں مزید سختی برتنی چاہیے کیوں کہ ان کے بقول ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے میں بہت کم وقت بچا ہے۔

ایران کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان خطیب زادے نے فرانسیسی صدر کے اس بیان کے ردِعمل میں کہا تھا کہ اُنہیں خود پر قابو رکھنا چاہیے۔

اُن کا کہنا تھا کہ فرانس اور مغربی ممالک کو خطے سے متعلق اپنی پالیسیوں پر نظرِثانی کرنی چاہیے۔ کیوں کہ فرانس سمیت دیگر مغربی ممالک کے خطے کے کچھ ممالک کو اسلحے کی فروخت سے نہ صرف ہزاروں یمنی شہری مارے جا رہے ہیں بلکہ ایسا کرنا علاقائی عدم استحکام کی بڑی وجہ بھی ہے۔