سینیٹ سے جج کیوینو کی توثیق صدر ٹرمپ کی بڑی فتح

فائل فوٹو

اس قضیے کا نتیجہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے ایک بڑی فتح کی صورت میں سامنے آیا ہے جس کے دور رس سیاسی اثرات ہو سکتے ہیں۔

امریکہ کی سینیٹ نے 48 کے مقابلے میں 50 ووٹوں کے ساتھ سپریم کورٹ کے جج کے عہدے کے لیے بریٹ کیوینو کی نامزدگی کی توثیق کر دی ہے۔

اس توثیق کے ساتھ ہی حالیہ تاریخ کی پر خراش اور بہت قریب سے دیکھی جانے والی نامزدگی کی جنگوں میں سے ایک اپنے انجام کو پہنچ گئی ہے۔

وائس آف امریکہ کے نمائندے مائیکل بومین کی رپورٹ کے مطابق اس قضیے کا نتیجہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے ایک بڑی فتح کی صورت میں سامنے آیا ہے جس کے دور رس سیاسی اثرات ہو سکتے ہیں، وہ بھی ایسے وقت جب وسط مدتی انتخابات میں صرف ایک ماہ باقی ہے۔

بریٹ کیوینو نے خود پر لگے ناروا جسنی رویے کے الزامات کے خلاف مزاحمت کی جس نے پہلے سے جماعتی بنیادوں پر برہم سینٹ کو مزید برانگیختہ کر دیا۔ لیکن اب وہ سپریم کورٹ کے نئے جج کا عہدے پر فائز ہو چکے ہیں۔

ہفتے کو بریٹ کیوینو کی نامزدگی کی توثیق کے لیے ووٹنگ کے موقع سینیٹ کے ایوان کے اندر اور باہر احتجاج ہوتا رہا۔

سینیٹ کے ایک ڈیموکریٹ اور دو سے تین ایسے ری پبلکن ارکان نے جنہوں نے کیوینو کی حمایت یا مخالفت کا پہلے فیصلہ نہیں کر رکھا تھا، جمعے کو ان کی حمایت کا اعلان کر دیا تھا جس کے بعد ان کی توثیق کی راہ میں حائل آخری رکاوٹ بھی دور ہوگئی تھی۔

ری پبلکن سینیٹر سوزن کالنز نے یہ کہہ کر جج کیوینو کی نامزدگی کے حق میں ووٹ دینے کا اعلان کیا تھا کہ وہ نہیں سمجھتیں کہ یہ الزامات کیوینو کو سپریم کورٹ کے جج کی حییثیت سے خدمات انجام دینے سے روک سکتے ہیں۔

ایک ہفتہ قبل یونیورسٹی پروفیسر کرسٹین بلاسی فورڈ نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے عدلیہ میں اپنا بیانِ حلفی دیتے ہوئے کہا تھا کہ کیوینو نے ان کے ساتھ 1982ء میں اس وقت دست درازی کی کوشش کی تھی جب وہ دونوں کالج کے طالبِ علم تھے۔

جج کیوینو نے سختی سے اس الزام کی تردید کی تھی۔ ایف بی آئی کی ایک ہفتے پر مشتمل محدود تحقیقات میں بھی مبینہ طور پر اس الزام کی حمایت میں کوئی قابلِ ذکر شہادت نہیں ملی تھی جس کے بعد تمام ری پبلکن سینیٹرز نے جج کیوینو کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔

سپریم کورٹ کے جج کی نامزدگی کی اس جنگ پر پوری امریکی قوم شش و پنج میں مبتلا رہی اور لوگوں کی طرف سے سخت جذبات کا اظہار کیا گیا۔

ڈیموکریٹ سینیٹر کرسٹین گلیبرینڈ کے بقول، "آج پورے ملک میں دسیوں لاکھوں خواتین کے لیے ایک تکلیف دہ دن ہے۔ ان کی آواز سنی جائے گی۔ وہ احتجاجی مارچ کریں گی۔ وہ ٹاون ہالز میں شرکت کر رہی ہیں۔"

ری پبلکن سینیٹر جان کارنی کہتے ہیں، "ہم نے جو چند ایک حربے دیکھے ہیں۔ سینیٹرز پر راہداریوں میں جملے کسے جاتے ہیں۔ ان پر چیخا چلایا جاتا ہے۔ اس چیز کو نیا معمول نہیں بننے دینا چاہیے۔ ہم ایسی چال بازیوں کو اعزاز نہیں بخشیں گے۔"

وہ لوگ جو کیوینو کی سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے تعیناتی اور سپریم کورٹ میں قدامت پسندوں کی اکثریت ہو جانے پر نالاں ہیں، ان کے لیے ڈیموکریٹس کا ایک سادہ سا پیغام ہے کہ "ووٹ دیجیے۔"

بریٹ کیوینو کی توثیق کے بعد ڈیموکریٹ سینیٹر ڈک ڈربن نے کہا، "کل ایک نیا دن ہو گا۔ ہم خوش نصیب ہیں کہ ایسی جمہوریت میں رہتے ہیں جو ہماری آزادیوں کا تحفظ کرتی ہے اور ہمارے شہریوں کو پولنگ اسٹیشنز پر حرفِ آخر کہنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔"

آئندہ ماہ ہونے والے وسط مدتی انتخابات اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ کانگریس کے دونوں ایوانوں پر کس پارٹی کا کنٹرول ہوگا؟ انتخابی جائزے ثابت کر رہے ہیں کہ کیوینو کے مسئلے پر تند و تیز جنگ نے ڈیموکریٹک اور ری پبلکن پارٹی کے بنیادی حامی ووٹروں کو تازہ دم کر دیا ہے۔

جو جماعت بھی اس جوش و خروش کو برقرار رکھے گی، وہ قوی امکان ہے کہ نومبر کے انتخابات میں اس کے ثمرات پائے گی۔