خیبر پختونخوا: بچوں سے جبری مشقت اور گھروں میں ملازمت کرانے پر پابندی عائد

صوبائی وزیر شوکت یوسف زئی نے اسمبلی میں بل پیش کیا جس کے تحت 14 سال سے کم عمر بچوں سے گھریلو سطح پر بھی کام کرانے اور جبری مشقت پر پابندی ہو گی جب کہ گھریلو سطح پر ملازمین کی بھرتی کے لیے باقاعدہ طور پر تقرر نامہ جاری کیا جائے گا۔ (فائل فوٹو)

صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت نے 14 سال سے کم عمر بچوں سے جبری مشقت اور گھروں میں ملازمت کرانے پر پابندی عائد کر دی ہے۔

صوبائی اسمبلی کی طرف سے گھریلو سطح پر کام کرنے والے ملازمین کے حقوق، فرائض اور مشکلات کے حل کے لیے 'خیبر پختونخوا ہوم بیسڈ ورکرز ویلفیئر اینڈ پروٹیکشن بل 2021' کی منظوری دی ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے موجودہ حالات میں، جہاں مہنگائی، غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے، اس قانون پر عمل در آمد کرانا انتہائی مشکل دکھائی دیتا ہے۔

نئے قانون کے خدوخال

صوبائی وزیر برائے محنت شوکت یوسف زئی نے صوبائی اسمبلی میں بل پیش کیا جس کے تحت 14 سال سے کم عمر بچوں سے گھریلو سطح پر بھی کام کرانے اور جبری مشقت لینے پر پابندی ہو گی جب کہ گھریلو سطح پر ملازمین کی بھرتی کے لیے باقاعدہ طور پر تقرر نامہ جاری کیا جائے گا جس میں تنخواہ، اس کی ادائیگی کا طریقۂ کار اور کام کی نوعیت کے بارے میں واضح طور پر لکھا جائے گا۔

اس قانون کے نفاذ کے بعد ہر مالک گھریلو سطح پر کام کرنے والے اپنے محنت کشوں کو تقرر نامے جاری کرے گا۔ جب کہ کام کرنے کا دورانیہ آٹھ گھنٹے ہی ہو گا البتہ اگر کوئی محنت کش اپنی مرضی سے اضافی کام کرنا چاہے تو اس کے لیے اسے اضافی اجرت دی جائے گی۔ اس صورت میں بھی ہفتہ وار کام کرنے کا دورانیہ 60 گھنٹوں سے زائد نہیں ہونا چاہیے۔

قانون کے تحت مالک کی جانب سے ملازم کو بے دخل کرنے یا ملازم کی نوکری چھوڑنے کی صورت میں ایک ماہ قبل تحریری طور پر آگاہ کرنا لازمی ہوگا اور ایک ماہ کی پوری تنخواہ کی ادائیگی کی جائے گی۔

بل کثرت رائے سے منظور

صوبائی اسمبلی میں بل پیش ہونے کے بعد اس پر حکومتی اور حزبِ اختلاف کے اراکین اسمبلی نے کافی بحث مباحثہ کیا۔

حزبِ اختلاف میں شامل جماعتوں کے اراکین نے بل کی بعض شقوں اور حکومت کی جانب سے اقدامات نہ کرنے پر برہمی کا اظہار کیا۔

Your browser doesn’t support HTML5

پاکستان میں چائلڈ لیبر کو کیسے روکا جائے؟

بعض ارکان نے ترامیم کے لیے تجاویز پیش کیں مگر حکومت نے انہیں نظر انداز کیا۔ ردِ عمل میں حزبِ اختلاف سے تعلق رکھنے والے ارکانِ اسمبلی نے احتجاجاََ واک آؤٹ کیا۔

اس دوران اسپیکر نے بل منظوری کے لیے پیش کیا جسے کثرت رائے سے منظور کیا گیا ۔

ماہرین کی رائے

اس نئے قانون کے منظوری پر بچوں، خواتین اور انسانی حقوق کے تحفظ کی تنظیموں سے وابستہ افراد نے ملے جلے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس پر عمل در آمد کرنا انتہائی مشکل دکھائی دیتا ہے۔

ماہرین کے مطابق اس سے پہلے بھی 2010 میں اٹھارویں آئینی ترمیم کے منظوری کے بعد خیبر پختونخوا سمیت ملک بھر میں اسی قسم کی قانون سازی کی گئی تھی مگر ان قوانین پر عمل در آمد یا عملی جامہ پہنانے کے لیے کسی قسم کے اقدامات نہیں کیے گئے۔

بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم عمران ٹھکر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اسی قسم کے قوانین تو پہلے سے موجود ہیں مگر ان قوانین پر عمل درآمد کے لیے نہ صرف موجودہ بلکہ ماضی کی حکومتوں نے بھی کوئی اقدامات نہیں کیے۔

عمران ٹھکر کا کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ کم سن بچوں اور خواتین سے جبری مشقت کا سلسلہ جاری ہے۔ بعض اداروں یا گھرانوں میں کام کرنے والے بچوں اور خواتین کو بہت کم اجرتیں دی جا رہی ہیں۔

ان کے بقول ان متاثرہ یا مجبور لوگوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کسی قسم کا لائحہ عمل ابھی تک مرتب نہیں کیا گیا ہے۔

عمران ٹھکر کا کہنا تھا کہ اس قسم کی قانون سازی سے قبل ذہن سازی بہت ضروری ہے اور سب سے پہلے تو مختلف سرکاری اداروں میں ربط کے فقدان پر قابو پانا بہت ضروری ہے کیوں کہ اس قسم کی قوانین پر عمل در آمد کرنے میں کئی ایک ادارے شامل ہوتے ہیں۔

قانون کے تحت مالک کی جانب سے ملازم کو بے دخل کرنے یا ملازم کی جانب سے نوکری چھوڑنے کی صورت میں ایک ماہ قبل تحریری طور پر آگاہ کرنا لازمی ہوگا اور ایک ماہ کی پوری تنخواہ کی ادائیگی کی جائے گی۔ (فائل فوٹو)

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس طرح ان قوانین پر عمل در آمد تب ہی ممکن ہے جب آجر اور ملازم کو اپنے حقوق اور فرائض سے آگاہ ہوں۔

'اب مالکان ہر چھ ماہ بعد ملازمین کو برطرف کریں گے'

خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم 'عورت فاؤنڈیشن' سے منسلک صائمہ منیر نے نئے قانون کی منظوری کو خوش آئند قرار دیا البتہ ان کا کہنا تھا کہ اس میں ملازمین یا مزدوری کرنے والوں کے بجائے آجر کا بہت خیال رکھا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس قسم کے قوانین پر عمل درآمد تب ہی ممکن ہے جب بچوں اور گھریلو ملازمت کرنے والوں کے اعداد و شمار واضح ہوں اور ان کے کام یا ملازمت کے دورانیے کا باقاعدہ اندراج کیا جا رہا ہو۔

صائمہ کا مزید کہنا تھا کہ اس قانون میں کہا گیا ہے کہ ایک سال تک ملازمت کرنے والوں کی صحت اور علاج و معالجے کی تمام تر ذمہ داری اب مالک پر عائد ہوگی لہذا اب مالکان ہر چھ ماہ بعد ان ملازمین کو برطرف کریں گے۔

'ان قوانین پر عمل در آمد کے لیے اقدامات کا فقدان ہے'

بچوں اور گھریلو ملازمت کرنے والی خواتین کو قانونی مدد فراہم کرنے والے وکیل نور عالم خان ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں تو حکومت ترقی یافتہ ممالک کی طرح قانون سازی کرتی رہتی ہے مگر ان قوانین پر عمل در آمد کے لیے اقدامات کا فقدان ہے۔

SEE ALSO: بچوں کا عالمی دن: دنیا میں سولہ کروڑ بچے محنت مزدوری پر مجبور ہیں، عالمی ادارۂ محنت کی رپورٹ

نور عالم کا کہنا تھا کہ پاکستان کا شمار ان چند ممالک میں ہوتا ہے جہاں پر تشدد اور دہشت گردی سے زیادہ تر لوگ متاثر ہوئے ہیں اور سب سے پہلے یہاں پر انتظامی، معاشرتی، معاشی اور سماجی اصلاحات کی ضرورت ہے۔

ان کے مطابق اسی طرح متاثرہ لوگوں یعنی مجبور بچوں اور خواتین کے علاوہ آجروں اور مالکان میں آگاہی اور شعور اجاگر کرنے سے بھی ان قوانین پر عمل در آمد ممکن بنایا جاسکتا ہے۔

حکومت کا مؤقف

خیبر پختونخوا کے وزیرِ محنت شوکت علی یوسف زئی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس نئے قانون پر عمل در آمد سے متعلق اقدامات کرنے کے لیے متعلقہ حکام کو سخت تاکید کی گئی ہے اور تمام سرکاری اداروں بشمول قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان مستقل طور پر رابطے کے لیے بھی حکمت عملی وضع کی جارہی ہے۔

عمران ٹھکر کے مطابق اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے حقوق اطفال و تعلیم کی مالی معاونت کی بندش کے بعد خیبر پختونخوا کے 12 اضلاع میں بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے قائم دفاتر ابھی تک فعال نہیں ہو سکے ہیں۔

ان دفاتر کو محکمۂ سماجی بہبود کے ضلعی دفاتر کی نگرانی میں دیا گیا تھا۔

ابھی تک کسی بھی حکومتی یا غیر سرکاری ادارے نے جبری مشقت یا گھریلو ملازمت کرنے والے مرد اور خواتین کارکنوں کے اعداد و شمار جمع نہیں کیے۔ جو ماہرین کے بقول اس قسم کے قوانین پر عمل درآمد میں ایک اہم رکاوٹ ہے۔