قذافی کے دور حکمرانی میں لیبیا، امریکہ تعلقات میں مدوجزر

قذافی کے دور حکمرانی میں لیبیا، امریکہ تعلقات میں مدوجزر

صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ لیبیا کے لیڈر معمر قذافی کے خلاف مظاہرے کرنے والوں کو ہلاک کرنا انتہائی ظالمانہ اقدام ہے ۔ گذشتہ چار عشروں سے امریکہ اور لیبیا کے درمیان تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے۔

معمر قذافی یکم ستمبر، 1969ء کو ایک پر امن فوجی انقلاب کے ذریعے بر سرِ اقتدار آئے تھے ۔ انھوں نے لیبیا کے شاہ ادریس کا تختہ الٹا تھا جو اس زمانے میں علاج کے سلسلے میں ملک سے باہر تھے۔

Bruce St John لیبیا پر سات کتابوں کے مصنف ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ابتدا میں قذافی اور امریکہ کے درمیان تعلقات عام طور سے اچھے تھے۔ ان کے مطابق ’’شروع کے برسوں میں ان کی تمام تر توجہ عرب قومیت، عرب اتحاد، اور عرب سوشلزم پر تھی۔ 1974ء تک ، امریکہ میں بعض لوگ سمجھتے تھے کہ ہم قذافی اور ان کی حکومت کے ساتھ کام کر سکتے ہیں۔ بعد کے برسوں میں قذافی نے، نہ صرف شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں، بلکہ ساری دنیا میں دہشت گردی کے طریقے استعمال کرنا شروع کر دیے۔‘‘

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ 1970ء کے عشرے میں قذافی نے لیبیا کو دوسرے عرب ملکوں کے ساتھ متحد کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی نتیجہ بر آمد نہیں ہوا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اسی زمانے میں قذافی نے بعض ایسی تنظیموں کو مدد فراہم کرنی شروع کر دی جنھیں بعض حکومتیں دہشت گرد سمجھتی تھیں، جیسے آئرش ریپبلیکن آرمی اور ابو ندال گروپ۔ ریگن انتظامیہ کے دور میں واشنگٹن اور طرابلس کے درمیان تعلقات انتہائی خراب ہو گئے۔ صدر ریگن نے قذافی کو مشرق وسطیٰ کا پاگل کتا کہا۔

St John کہتے ہیں کہ دسمبر 1985ء میں دہشت گردوں نے روم اور وی آنا کے ہوائی اڈوں پر حملہ کیا اور اپریل 1986ء میں دو امریکی سپاہی مغربی برلن میں اس وقت ہلاک ہو گئے جب مغربی برلن کے ایک نائٹ کلب میں ایک بم پھٹا۔ St John کہتے ہیں کہ ’’اگرچہ ثبوت واضح نہیں تھا لیکن امریکی حکومت کا خیال تھا کہ اس دونوں کارروائیوں میں قذافی اور ان کی حکومت ملوث ہے اور خاص طور سے La Belle کلب کا واقعہ تھا جس کی وجہ سے ریگن انتظامیہ نے قذافی کی حکومت کو سزا دینے کا فیصلہ کیا اور صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ ہم ایسی حرکتوں کو برداشت نہیں کریں گے ۔‘‘

اپریل 1986ء کے وسط میں امریکی ہوائی جہازوں نے بن غازی اور طرابلس میں قذافی کے ذاتی کمپاؤنڈ سمیت کئی مقامات پر حملے کیے۔ ان حملوں میں معمر قذافی کی گود لی ہوئی بیٹی سمیت درجنوں افراد ہلاک ہو گئے۔

کئی سال بعد لیبیا کے مشتبہ ایجنٹوں نے پین ایم فلائٹ 103 کو اسکاٹ لینڈ کے شہر Lockerbie پر بم سے اڑا دیا۔ اس واقعے میں بہت سے امریکیوں سمیت 270 افراد ہلاک ہوئے۔

فائل فوٹو

Bruce St John کا کہنا ہے کہ ’’Lockerbie بمباری کا واقعہ 1988ء میں ہوا تھا۔ اس کے بعد 1989ء میں فرانس جانے والے ایک جہاز کو Niger میں بم سے اڑا دیا گیا۔ ان دو حملوں کے نتیجے میں امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے لیبیا پر اقوام متحدہ کی پابندیاں عائد کرنے کا اقدام کیا کیوں کہ لیبیا نے ان حملوں میں مشتبہ افراد کو حوالے کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ کارروائی 1992ء میں شروع ہوئی تھی اور ایک عشرے تک جاری رہی جب تک کہ لیبیا نے Lockerbie بمباری کے دو مشتبہ ملزموں کو حوالے نہ کردیا۔ ان میں ایک شخص کو سزا دی گئی۔‘‘

2001ء میں جس شخص کو سزا دی گئی تھی اس کا نام Abdel Baset al-Megrahi تھا۔ پھر جب 2009ء میں اس شخص کو اسکاٹ لینڈ کی حکومت نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر یہ کہتے ہوئے رہا کردیا کہ وہ مثانے کے کینسر کا مریض ہے اور تین مہینوں سے زیادہ زندہ نہیں رہے گا تو اس پر خاصا ہنگامہ ہوا اور اب ڈیڑھ سال گزرنے کے بعد، وہ اب بھی زندہ ہے ۔

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ 2003ء میں قذافی نے ایک ڈرامائی قلابازی کھائی۔ اول تو یہ کہ انھوں نے Lockerbie کے واقعے میں ہلاک ہونے والوں کے خاندانوں کو آخری رقم کی ادائیگی کر دی۔ اور دوم یہ کہ انھوں نے اعلان کیا کہ وہ اپنے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تیاری اور انہیں ہدف پر پہنچانے والے میزائلوں کے پروگرام سے دستبردار ہو رہے ہیں۔

کئی سال بعد 2006ء میں امریکہ نے لیبیا کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات بحال کر لیے، لیکن طرابلس سے لیبیا کے سفیر 2009ء میں ہی امریکہ پہنچے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اب جب کہ لیبیا کے عوام معمر قذافی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، امریکہ اور لیبیا کے تعلقات کا مستقبل غیر یقینی ہے۔ طرابلس میں امریکہ کے موجودہ سفیر، آج کل مشورے کے لیے امریکہ آئے ہوئے ہیں۔