|
ایران نے دمشق میں اپنے سفارت خانے پر مبینہ اسرائیلی حملے کے بعد انتقام لینے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن یہ انتقام کس قسم کا ہو گا؟ کب لیا جائے گا اور اس کی شدت کیا ہوگی؟ اس بارے میں مبصرین مختلف رائے رکھتے ہیں۔
دمشق میں پیر کو ایران کے سفارت خانے سے متصل قونصلر سیکشن پر فضائی حملے کے نتیجے میں ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے بریگیڈیئر جنرل محمد رضا زاہدی سمیت سات افراد ہلاک ہوئے تھے۔
ایران نے الزام عائد کیا تھا کہ یہ حملہ اسرائیل نے کیا ہے۔ تاہم اسرائیل نے حملے کی ذمے داری قبول نہیں کی ہے۔
البتہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے گزشتہ روز سفارت خانے کو نشانہ بنانے پر انتقام لینے کا اعلان کیا تھا۔
مبصرین کے خیال میں ایران کے پاس انتقام لینے کے مختلف آپشنز موجود ہیں۔ ان کے خیال میں تہران اسرائیل کی تنصیبات کو براہِ راست نشانہ بنانا سکتا ہے یا اپنے زیرِ اثر ملسح تنظیموں کو خطے میں موجود امریکی فورسز کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ایران اپنے نیوکلیئر پروگرام کو بھی تیز کر سکتا ہے۔
SEE ALSO: سفارت خانے کو نشانہ بنانے کے جواب کا حق محفوظ رکھتے ہیں: ایرانواضح رہے کہ ایران ماضی میں بھی اپنے ایک جنرل قاسم سلیمانی کی امریکی حملے میں ہلاکت کے بعد جوابی کارروائی کر چکا ہے۔
امریکی تھنک ٹینک کونسل آن فارن ریلیشنز سے وابستہ مشرقِ وسطیٰ کے امور کے ماہر ایلیٹ ابراہم کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں ایران اسرائیل سے براہِ راست جنگ نہیں چاہے گا بلکہ وہ اسرائیلی مفادات کو نشانہ بنائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ایران یہ بھی نہیں چاہے گا کہ لبنانی عسکری تنظیم حزب اللہ کو استعمال کرتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ جنگ کی جائے۔ اس لیے ان کے خیال میں حزب اللہ کی جانب سے کسی بڑے حملے کی صورت میں بھی ردِ عمل آنے کی توقع نہیں ہے۔
ایلیٹ کے مطابق ایران کے پاس ردِ عمل کے لیے کئی دیگر آپشنز ہیں جن میں کسی اسرائیلی سفارت خانے کو تباہ کیا جانا بھی ہو سکتا ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق ایران اور اسرائیل تنازع سے باخبر رہنے والے ایک ذریعے نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ ایران کو اس وقت ایک معمہ کا سامنا ہے کیوں کہ تہران ردِ عمل چاہتا ہے اور اگر وہ اسرائیل کے خلاف کارروائی کرتا ہے تو اس سے تصادم کا خدشہ ہے اور تہران ایسا کبھی نہیں چاہتا۔
انہوں نے کہا کہ اگر ایران نے اپنے ردِ عمل کا اظہار نہ کیا تو اسے کاغذی شیر تصور کیا جائے گا۔ لہٰذا تہران اسرائیل کے خلاف باقاعدہ کارروائی کر سکتا ہے اور یہ کارروائی اسرائیلی سفارت خانوں یا خطے میں موجود یہودیوں کی تنصیبات بھی ہو سکتی ہیں۔
رائٹرز کے مطابق امریکی حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انہیں فی الحال ایسی کوئی انٹیلی جینس معلومات نہیں کہ آیا ایران دمشق حملے کے تناظر میں خطے میں موجود امریکی اہلکاروں کو نشانہ بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے لیے نائب امریکی سفیر رابرٹ ووڈ نے منگل کو اپنے ایک بیان میں تہران کو خبردار کیا تھا کہ امریکہ خطے میں اپنے فوجیوں کا دفاع کرنے میں ذرہ برابر نہیں ہچکچائے گا۔
SEE ALSO: سلامتی کونسل شام میں ایرانی قونصل خانے پر اسرائیلی حملے پر ہنگامی اجلاس بلائے: ایرانانہوں نے کہا کہ ایران اور اس کی حامی جنگجو تنظیموں کو ہمارا انتباہ ہے کہ اگر وہ موجودہ صورتِ حال سے فائدہ اٹھا کر امریکی فورسز پر حملے کرے گی تو اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔
امریکی حکام کے مطابق ایران کی جانب سے امریکی فوجیوں کے بجائے اسرائیلی مفادات پر حملے کیے جا سکتے ہیں۔
امریکی تھنک ٹینک "سینٹر فار اسٹرٹیجک اینڈ انٹیلی جینس اسٹڈیز " کے مشرقِ وسطیٰ کے امور کے ڈائریکٹر جان الٹرمین کے مطابق انہیں توقع نہیں ہے کہ ایران سفارت خانے کے حملے کا جواب دے گا۔
انہوں نے کہا کہ ایران اسرائیل کو سبق سکھانے میں کم دلچسپی رکھتا ہے بلکہ وہ خطے میں اپنے اتحادیوں کو یہ دکھانا چاہتا ہے کہ وہ کمزور نہیں ہے۔
اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔