مشرق وسطیٰ کے استحکام پر اوباما اور خلیجی اتحادی متحد

امریکہ اور خلیج تعاون کونسل نے اس بات سے بھی اتفاق کیا کہ شام میں سیاسی حل کی ضرورت ہے۔ اوباما نے کہا کہ شرکا نے اس بات سے بھی اتفاق کیا کہ شام کی خانہ جنگی کے خاتمے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ ایک عبوری حکومت قائم کی جائے اور صدر بشار الاسد سے دور رہا جائے

صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ امریکہ اور خلیج ممالک کے سربراہان تنازعے میں پھنسے مشرق وسطیٰ میں داعش کے شدت پسند گروپ کو تباہ کرنے اور خطے کو استحکام بخشنے کی کوششوں کے حوالے سے متحد ہیں۔

اوباما نے ریاض میں دولت اسلامیہ کے لیے ’داعش‘ کا لفظ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ ’’داعش کو تباہ کرنے کی لڑائی میں ہم متحد ہیں۔۔۔ جس سے ہم سب کو خدشات ہیں‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے ارکان ’’داعش کے خلاف لڑائی میں اور جس اتحاد کو ہم نے تشکیل دیا، اُس کے لیے، اپنے عطیات میں اضافہ کرتے رہیں گے‘‘۔

جمعرات کو منعقدہ خلیج تعاون کونسل کے چھ ملکی سربراہ اجلاس کی اختتامی نشست سے خطاب کرتے ہوئے، صدر نے خطے کے اپنے ساتھیوں اور اتحادیوں کے خلاف جارحیت و خطرات سے نمٹنے کے سلسلےمیں امریکی عزم کا اعادہ کیا۔

اوباما کے بقول، ’’مجموعی طور پر، مشترکہ سلامتی کے معاملے اور ایک دوسرے کی مدد کرنے پر ہمارے درمیان کثرت سے اتفاقِ رائے موجود ہے۔ دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں انٹیلی جنس کا تبادلہ اہمیت کا حامل ہے‘‘۔

اوباما نے امریکی اور خلیج تعاون کونسل کے سربراہان کے مابین سمجھوتے کے وسیع تر خدو خال پر بات کی، جیسا کہ ایران اور شام میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کوششوں میں اضافہ، اور ساتھ ہی داعش کے زیر تسلط قصبہ جات کو واگزار کرانے اور استحکام لانے کے کام کے ضمن میں عراق کی حمایت جاری رکھنا شامل ہے۔

امریکہ اور خلیج تعاون کونسل نے اس بات سے بھی اتفاق کیا کہ شام میں سیاسی حل کی ضرورت ہے۔

اوباما نے کہا کہ شرکا نے اس بات سے بھی اتفاق کیا کہ شام کی خانہ جنگی کے خاتمے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ ایک عبوری حکومت قائم کی جائے اور صدر بشار الاسد سے دور رہا جائے۔

تاہم، امریکہ اور خلیج تعاون کونسل کے سربراہان کے مابین جس معاملے پر تناؤ پایا جاتا ہے وہ ہے ایران۔
اوباما کے بقول، ’’شاید سب سے بڑا معاملہ ایران سے متعلق نااتفاقی کا ہے، جس بات میں وزن ہے۔ معاملہ ایران کی اشتعال انگیزیوں سے نمٹنے کے لیے مشترکہ تعاون کی ضرورت کا ہی نہیں، بلکہ اِس پر ہم سب کا اتفاق رائے ہے‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان طے ہونے والے جوہری سمجھوتے کے نتیجے میں ایران کی جانب سے جوہری ہتھیار تشکیل دینے کی تمام راہیں بند ہوگئی ہیں، (لیکن) ہم تسلیم کرتے ہیں کہ مشترکہ طور پر، ہم سب کو ایران کے بارے میں تشویش لاحق رہتی ہے‘‘۔

تاہم، ’’تناؤ میں کمی لانے‘‘ کے حوالے سے، اوباما نے خطے میں سفارت کاری اور مکالمہ جاری کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

اُنھوں نے مزید کہا کہ ایران کے ساتھ تنازعے سے کسی بھی ملک کا کوئی مفاد وابستہ نہیں۔

سعودی عرب کے علاوہ، خلیج تعاون کونسل کے اتحاد میں کویت، متحدہ عرب امارات، قطر، بحرین اور اومان شامل ہیں۔

ایک روزہ سربراہ اجلاس میں شام، یمن، عراق اور لیبیا میں جاری سیاسی بھونچال اور لڑائی، داعش اور القاعدہ کے خلاف لڑائی میں تیزی لانا اور ایران کے جانب سے خطے میں عدم استحکام کی کوششوں سے نبردآزما ہونے کی سعی شامل ہے۔