نسلی تعصب پر بنائی گئی آسکر ایوارڈ یافتہ فلمیں

  • مبشر علی زیدی

امریکہ میں ان دنوں نسلی تعصب کے خلاف شہر شہر احتجاج کیا جا رہا ہے اور خاص طور پر سیاہ فاموں کے خلاف پولیس کے رویے کی جانب توجہ دلائی جارہی ہے۔

یہ مسئلہ نیا نہیں اور زندگی کے دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کی طرح فنکار بھی اس کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ ہالی ووڈ میں سو سال سے زیادہ عرصے سے اس موضوع پر فلمیں بنائی جا رہی ہیں جن میں نسلی تعصب کی کہانی بیان کی گئی۔

امریکہ میں یہودی، میکسیکن اور ایشیائی امریکی بھی نسلی تعصب کی شکایت کرتے رہے ہیں اور ان سب کے ساتھ نامناسب سلوک پر متعدد فلمیں بنائی جا چکی ہیں۔ لیکن یہاں ہم صرف ان چند فلموں کا ذکر کریں گے جن میں سیاہ فاموں کے ساتھ امتیاز برتا گیا اور کہانی کو عمدہ انداز میں بیان کرنے پر آسکر ایوارڈ سے نواز گیا۔

ان دا ہیٹ آف دا نائٹ

1967 میں پیش کی گئی فلم ان دا ہیٹ آف دا نائٹ میں سیاہ فاموں کے خلاف پولیس کے نسلی تعصب کو اجاگر کیا گیا۔ یہ ایک قصبے کی کہانی ہے جس میں ایک سفید فام شخص قتل ہو جاتا ہے۔ ریلوے اسٹیشن پر ٹرین کا انتظار کرنے والے ایک سیاہ فام شخص کو پولیس کسی تفتیش کے بغیر اس قتل کے الزام میں حراست میں لے لیتی ہے۔ جب اس شخص کو بولنے کا موقع دیا جاتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ وہ ایک دوسرے شہر کا پولیس افسر اور قتل کے کیس حل کرنے کا ماہر ہے۔

آخر اس قصبے کے قتل کا معمہ بھی وہی حل کرتا ہے۔ لیکن اس دوران اس کے ساتھ دوسروں کا سلوک آنکھیں کھول دینے والا ہے۔ یہ کردار سڈنی پوئیٹئیر نے ادا کیا ہے جو چار سال پہلے آسکر ایوارڈ حاصل کرنے پہلے سیاہ فام اداکار بنے تھے۔ ان دا ہیٹ آف دا نائٹ کو بہترین فلم اور نسل پرست پولیس افسر کا کردار نبھانے والے روڈ اسٹیجر کو بہترین اداکار کا آسکر دیا گیا تھا۔

ڈرائیونگ مس ڈیزی

مس ڈیزی ایک یہودی بزرگ خاتون ہیں جن کا بیٹا ان کے لیے ایک سیاہ فام ڈرائیور ملازم رکھتا ہے۔ مسز ڈیزی کو ڈرائیور کا رنگ پسند نہیں لیکن جب ان کی عبادت گاہ پر حملہ ہوتا ہے تو انھیں احساس ہوتا ہے کہ وہ بھی نسلی امتیاز کا نشانہ ہیں۔ رفتہ رفتہ وہ ڈرائیور کے ساتھ سمجھوتہ کر لیتی ہیں۔ حد یہ کہ جب وہ الزائمر کا شکار ہو جاتی ہیں تو انھیں صرف ایک دوست یاد رہ جاتا ہے اور یہ وہی سیاہ فام ڈرائیور ہے۔

1989 میں نمائش کے لیے پیش کی گئی فلم میں مس ڈیزی کا کردار ادا کرنے والی جیسیکا ٹینڈی کو بہترین اداکارہ کا آسکر دیا گیا تھا۔ ڈرائیور کا کردار مورگن فری مین نے نبھایا تھا۔

کریش

2004 میں پیش کی گئی فلم کریش لاس اینجلس کے شہریوں کی داستان ہے جہاں زندگی کے ہر شعبے میں نسلی تعصب دکھائی دیتا ہے۔ شوبز کی دنیا کے افراد اس سے بچے ہوئے نہیں اور پولیس اہلکار کسی بھی شخص کی عزت پر ہاتھ ڈال سکتے ہیں۔ سیاہ فام پولیس اہلکار بھی اس مسئلے سے دوچار ہیں۔

فلم میں کئی کہانیاں ایک ساتھ چلتی ہیں اور آخر میں ایک حادثے کی صورت میں ایک دوسرے سے جڑ جاتی ہیں۔ فلمساز پال ہگز کے مطابق خود ان کے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا تھا جس کے بعد انھیں یہ فلم بنانے کا خیال آیا۔ اس فلم کو آسکر دینے کے فیصلے پر کافی تنقید ہوئی اور بعض لوگوں نے اسے بھی نسلی تعصب سے جوڑا۔

ٹویلوو ایئرز آ سلیو

یہ ایک تعلیم یافتہ سیاہ فام شخص کی کہانی ہے جسے بردہ فروشوں نے غلام بناکر فروخت کیا اور اس نے بارہ سال اس عالم میں گزارے۔ اس کے مالک کو معلوم ہوا کہ وہ پڑھ سکتا ہے اور بہترین موسیقار ہے، اس کے باوجود اس نے غلاموں جیسا سلوک جاری رکھا۔

یہ فلم نیویارک کے فنکار سولومن نارتھپ کی آپ بیتی پر مبنی ہے جنھیں 1841 میں واشنگٹن سے اغوا کیا گیا اور وہ لوزیانا میں غلامی پر مجبور رہے۔ سولومن کو بارہ سال بعد رہائی مل گئی تھی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ انھیں اغوا کرنے والوں پر مقدمہ چلائے جانے کے باوجود سزا نہیں دی گئی۔

یہ فلم 2013 میں ریلیز ہوئی اور اسے آسکر ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ اسٹیو میک کوئن پہلے برطانوی سیاہ فام فلمساز بنے جنھیں یہ اعزاز حاصل ہوا۔

مون لائٹ

2016 میں ریلز کی گئی یہ فلم ہالی ووڈ کی اولین پیشکش تھی جس کی مکمل کاسٹ سیاہ فام اداکاروں پر مشتمل تھی۔ اس کے علاوہ یہ پہلی فلم تھی جس میں ہم جنس پرستی کو موضوع بنایا گیا۔ دراصل یہ ایک نوجوان کی کہانی ہے جو بچپن سے احساس کمتری کا شکار ہے۔ فلم میں اس کی زندگی کے تین مرحلے دکھائے گئے ہیں۔

مہرشالا علی نے اس میں ایک مختصر کردار نبھایا تھا لیکن ان کی اداکاری اس قدر شاندار تھی کہ انھیں بہترین معاون اداکار کا آسکر ایوارڈ دیا گیا۔

گرین بک

2018 میں ریلیز کی گئی فلم گرین بک ایک موسیقار کی کہانی ہے جو پیانو بہت اچھا بجاتا ہے اور اسے امریکہ بھر سے تقریبات کے دعوت نامے آتے ہیں۔ لیکن جب وہ کسی شہر جاتا ہے تو اسے اچھے ہوٹل میں کمرہ نہیں ملتا اور اچھے ریسٹورنٹ میں کھانا نہیں کھا سکتا۔ اتفاق سے اس کا نیا ڈرائیور ایک سفید فام نسل پرست شخص ہے لیکن وہ موسیقار کے ساتھ سلوک دیکھ کر اپنا رویہ بدلنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

فلم کی کہانی جاز پیانسٹ ڈون شرلے کی حقیقی زندگی پر مبنی ہے اور ان کا کردار نبھانے پر مہرشالا علی کو دوسرے آسکر ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔