فرانسیسی جریدے میں پیغمبرِ اسلام کے خاکوں کی دوبارہ اشاعت پر پاکستان کی مذمت

پاکستان کے دفتر خارجہ کی عمارت (فائل فوٹو)

پاکستان نے فرانسیسی جریدے 'چارلی ایبڈو' کے ایک حالیہ شمارے میں پیغمبرِ اسلام کے خاکے دوبارہ شائع کرنے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ آزادیٔ صحافت یا آزادیٔ اظہار کی آڑ میں اس اقدام کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔

فرانسیسی جریدے 'چارلی ایبڈو' نے یہ متنازع خاکے ایک ایسے وقت میں دوبارہ شائع کیے ہیں، جب جنوری 2015 میں پیرس میں واقع چارلی ایبڈو کے دفتر پر حملے میں مبینہ طور پر ملوث متعدد افراد کے خلاف مقدمے کی سماعت بدھ کو شروع ہو رہی ہے۔

'چارلی ایبڈو' کے تازہ شمارے میں لگ بھگ ایک درجن خاکے شائع کیے گئے ہیں جنہیں پہلی بار ڈنمارک کے ایک جریدے نے 2005 میں شائع کیا تھا۔

بعد ازاں انہیں مذکورہ فرانسیسی جریدے نے 2006 میں شائع کیا، جس سے دنیا بھر کے مسلمانوں میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی تھی اور بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے دیکھنے میں آئے تھے۔

خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق 'چارلی ایبڈو' کے تازہ شمارے کے سرورق پر اس کارٹونسٹ کا خاکہ بھی شائع کیا گیا ہے جو پیرس میں حملے کے دوران ہلاک ہو گیا تھا۔ جریدے کی شہ سرخی میں کہا گیا ہے کہ "یہ سب کچھ اسی لیے کیا گیا ہے۔"

پاکستانی دفترِ خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری نے ایک ٹوئٹ میں فرانسیسی جریدے 'چارلی ایبڈو' میں متنازع خاکوں کی دوبارہ اشاعت کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پیغمبرِ اسلام کے بارے میں قابلِ اعتراض خاکوں کی اشاعت ناقابلِ قبول ہے۔

ان کے بقول اس متنازع عمل سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔

اگرچہ بعض مغربی حلقے متنازع خاکوں کی اشاعت کو آزادیٔ صحافت اور شخصی آزادی قرار دیتے ہیں، لیکن دفترِ خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری کا کہنا ہے کہ اسے آزادیٔ صحافت یا آزادیٔ اظہارِ رائے کے طور پر جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔

ترجمان کے بقول ایسی کارروائیاں پرامن بقائے باہمی کے ساتھ ساتھ سماجی اور بین المذاہب ہم آہنگی کی عالمی خواہشات کے لیے نقصان کا باعث بنتی ہیں۔

فرانسیسی جریدے میں شائع ہونے والے متنازع خاکوں کی اشاعت کے بعد آزادیٔ صحافت اور آزادیٔ اظہار کے بارے میں ایک بار پھر بحث شروع ہو گئی ہے۔

بعض تجزیہ کاروں کہنا ہے کہ اگرچہ آزادیٔ اظہار ہر فرد کا بنیادی حق ہے لیکن اس بات کو ملحوظِ رکھا جانا بھی ضروری ہے کہ اس سے کسی شخص یا طبقے کی دل آزاری نہ ہو۔

تجزیہ کار زاہد حسین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مغرب میں ایسے قوانین موجود ہیں جو آزادیٔ اظہار اور شہری آزادیوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ لیکن اس بات کا بھی خیال رکھا جاتا ہے کہ اس سے کسی فرد یا طبقے کی دل آزاری تو نہیں ہو رہی۔

دوسری جانب انسانی حقوق کے ایک غیر سرکاری ادارے 'ہیومن رائٹس کمشن آف پاکستان' (ایچ آر سی پی) کے سربراہ مہدی حسن کا کہنا ہے کہ مذہب کسی بھی فرد کا بہت نجی اور ذاتی معاملہ ہے۔ اس میں کسی کو دخل دینے کا حق نہیں اور نہ ہی ریاست اس میں دخل دے سکتی ہے۔

اُن کے بقول اگر یہ پالیسی روا رکھی جائے تو عالمی سطح پر بھی بین الامذاہب ہم آہنگی کو فرو غ دیا جا سکتا ہے۔

پیغمبرِ اسلام کے متنازع خاکوں کی اشاعت کے معاملے پر ماضی میں بھی پاکستان سمیت کئی دیگر ممالک میں عوامی اور سرکاری حلقوں میں شدید ردِ عمل کا اظہار کیا گیا تھا اور پاکستان کی اعلیٰ قیادت اس معاملے کو عالمی سطح پر اٹھاتی رہی ہے۔

جنوری 2015 میں جریدے کے دفتر میں حملے میں 12 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

مہدی حسن کے بقول مذہب کو پاکستان میں بہت ہی حساس معاملہ خیال کیا جاتا ہے اور مذہبی معاملات پر ملک میں بڑے پیمانے پر احتجاج بھی ہوتے رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مختلف مذاہب کے درمیان مکالمے سے مذہبی رواداری کو فروغ دیا جا سکتا اور ایک دوسرے کے نکتۂ نظر کو سمجھنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔

تاہم ان کے خیال میں ایسے واقعات پر مسلم ممالک کو مشترکہ مؤقف اپنانے کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر مہدی حسن کہتے ہیں کہ اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کو ایک واضح پالیسی اپنا کر ایسے ممالک سے رجوع کرنا چاہیے جہاں اس طرح کا مواد شائع ہوتا ہے تاکہ اس معاملے کا سفارتی سطح پر حل تلاش کیا جا سکے۔

یاد رہے کہ 'چارلی ایبڈو' فرانس میں مذہبی و سیاسی شخصیات پر طنز و تنقید کے لیے شہرت رکھتا ہے۔ جب کہ یہ جریدہ 2006 میں بھی پیغمبرِ اسلام کے متنازع خاکے شائع کر چکا ہے۔

جنوری 2015 میں پیرس میں جریدے کے دفتر پر حملے میں مدیر اعلیٰ سمیت 12 افراد ہلاک ہو گئے تھے، جن میں متنازع خاکے بنانے والا کارٹونسٹ بھی شامل تھا۔

بعد ازاں فرانسیسی پولیس نے اس واقعے میں ملوث دو حملہ آوروں کو ایک کارروائی میں ہلاک کر دیا تھا۔ جریدے پر حملے میں مبینہ طور پر ملوث دیگر 14 افراد کے خلاف مقدمے کی سماعت بدھ سے پیرس میں شروع ہو رہی ہے۔

جریدے نے خاکوں کی دوبارہ اشاعت کے اپنے اقدام کا دفاع کیا ہے۔

اداریے میں کہا گیا ہے کہ 2015 کے حملوں کے بعد سے انہیں پیغمبرِ اسلام کے خاکون کی دوبارہ اشاعت کے لیے کہا جاتا رہا ہے۔

اداریے میں بتایا گیا ہے کہ 2015 کے حملوں کے بعد ایسا کرنا ضروری تھا۔