اندھی ڈالفن مچھلی کی ہلاکتوں کا معما

اندھی ڈالفن مچھلی کی ہلاکتوں کا معما

ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر پاکستان نے 2006ء میں آخری مرتبہ دریائے سندھ میں بلائنڈ ڈالفن کا سروے کیا تھا جس کے مطابق ان کی تعداد1600سے 1750کے درمیان تھی۔ عظمیٰ خان نے بتایا کہ ان کا ادارہ مارچ میں دوبارہ یہ سروے منعقد کررہا ہے جس سے ان کی صحیح تعداد معلوم ہوسکے گی۔

دریائے سندھ میں پائی جانے والی نایاب اندھی ڈالفن مچھلی کی پُراسرار ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے اور مقامی میڈیا کے مطابق پچھلے چھ روز کے دوران سندھ میں پنوں عاقل کے علاقے میں مختلف مقامات پر چھ مردہ مچھلیاں ملیں ہیں۔

دنیا میں ڈالفن کی چار اقسام پائی جاتی ہیں جن میں ایک بلائنڈ ڈالفن ہے جو کہ صرف پاکستان میں پائی جاتی ہے۔دریائے سندھ کے تازہ پانیوں میں پائی جانے والی اس نایاب نسل کی مچھلی کی اصل تعداد کے بارے میں اندازہ لگانا فی الحال مشکل ہے تاہم جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے قائم صوبائی ادارے کے محتاط اندازوں کے ان کی تعداد تقریباً810ہے جو گدو اور سکھر بیراج کے درمیان گھومتی رہتی ہیں۔

حالیہ دنوں میں مردہ حالت میں پائی جانے والی بلائنڈ ڈالفن کی موت کی اصل وجہ تاحال معلوم نہیں ہوسکی ہے لیکن مقامی حکام کا کہنا ہے کہ دریا میں مچھلیاں پکڑنے والے افراد ایک مخصوص کیمیاوی مواد پانی میں پھینکتے ہیں جس سے مچھلیاں سطح آب پر نمودار ہوجاتی ہیں اور یہی مواد اس نایاب نسل کی مچھلی کی موت کا سبب بن رہا ہے۔

اس بارے میں ورلڈ وائڈفنڈ فار نیچر(ڈبلیو ڈبلیو ایف)کی پاکستان میں ڈائریکٹر بائیوڈائیورسٹی عظمیٰ خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مردہ بلائنڈ ڈالفن کا پوسٹ مارٹم کرکے نمونے حاصل کیے گئے ہیں تاکہ معلوم ہوسکے کہ کونسا زہریلا مواد ان کی موت کی وجہ بنا۔ انھوں نے کہا کہ مچھلیاں پکڑنے کے لیے کسی زہریلے مواد کا استعمال غیر قانونی ہے لیکن ان کے بقول مقامی سطح پر حاصل کردہ معلومات کے مطابق اب مچھلیاں پکڑنے کے لیے کسی خاص اجازت نامے کی بجائے صرف 150روپے کا بے نظیر کا رڈ حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے ، تو اس طرح لوگ مختصر رقم ادا کرکے زیادہ سے زیادہ مچھلیاں پکڑنے کے لالچ میں پانی میں مضرمواد ملا دیتے ہیں۔

اندھی ڈالفن مچھلی کی ہلاکتوں کا معما

عظمیٰ خان نے کہا کہ گذشتہ برسوں میں کچھوؤں کی اسمگلنگ کے لیے بھی لوگوں نے یہ غیر قانونی طریقہ استعمال کیا اور پانی میں زہر یلا مواد ملا دیا تو اس سے کچھوؤں کے ساتھ ساتھ ڈالفن کی آبادی بھی متاثر ہوئی۔

ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر پاکستان نے 2006ء میں آخری مرتبہ دریائے سندھ میں بلائنڈ ڈالفن کا سروے کیا تھا جس کے مطابق ان کی تعداد1600سے 1750کے درمیان تھی۔ عظمیٰ خان نے بتایا کہ ان کا ادارہ مارچ میں دوبارہ یہ سروے منعقد کررہا ہے جس سے ان کی صحیح تعداد معلوم ہوسکے گی۔

اندھی ڈالفن اپنے نام سے متضاد کوئی ’معذور مچھلی‘ نہیں ہوتی ۔ اس کی آنکھ دن اور رات میں فرق کرسکتی ہے اور جب کہ تیرنے اور راستے کی معلومات کیے لیے یہ مچھلی آواز نکالتی ہے جس کی بازگشت پلٹ کر اس تک پہنچتی ہے جسے وہ قدرتی طور پر اپنے ماتھے پر وصول کرتی ہے۔ اس سے یہ اندھی ڈالفن چیزوں کی ہیئت اور راستوں کا پتہ چلاتی ہے۔