متفقہ حکمت عملی طے کیے بغیر پارلیمانی اجلاس ملتوی

پاکستانی پارلیمان کی عمارت

پاکستان میں کرونا وائرس سے پیدا شدہ صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے بلائے گئے غیر روایتی اجلاس بغیر کسی حکمت عملی کے اختتام پذیر ہوئے۔

ملک میں دو ماہ کے لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد سینیٹ اور قومی اسمبلی کے بلائے گئے، جو ایک ہفتے تک جاری رہے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس ہر ایک دن کے وقفے کے ساتھ تین دن منعقد ہوا، جبکہ سینیٹ اراکین محض دو دن کی کارروائی کا حصہ بن سکے۔

پارلیمنٹ کے ان اجلاسوں میں حکومت اور اپوزیشن اراکین کے روایتی تکرار کے علاوہ کسی حکمت عملی پر اتفاق ہوا نہ ہی اس حوالے سے کوئی قرارداد لائی جا سکی۔

قائد ایوان، وزیر اعظم عمران خان اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف دونوں ہی اس غیر روایتی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔

حزب اختلاف اور حکومتی جماعت نے پہلے سے اتفاق کیا تھا کہ اس غیر معمولی اجلاس میں نہ تو قانون سازی ہو گی، نہ سوالات پوچھے جائیں گے اور نہ ہی کوئی توجہ دلاؤ نوٹس یا تحریک التوا پیش کی جائے گی۔

اتفاق رائے کے مطابق، حزب اختلاف نے اس اجلاس میں بعض اوقات اراکین کی قلیل تعداد کے باوجود، کورم کی نشاندہی کرنے سے بھی اجتناب کیا۔

خیال رہے کہ حزب اختلاف اکثر و بیشتر موجودہ حکومت پر تنقید کرتی ہے کہ حکومت فیصلہ سازی کے حوالے سے پارلیمنٹ کو نظر انداز کر رہی ہے۔

حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے اس غیر روایتی اجلاس کے حوالے سے پہلے سے سوال اٹھائے جا رہے تھے کہ طے کردہ قواعد کے بعد قومی اسمبلی اجلاس میں تقاریر سننے اور کرنے کے سوا کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاسکے گی۔

اجلاس میں حزب اختلاف نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا تو وفاقی وزرا نے حکومتی اقدامات کا دفاع کیا۔ اگرچہ حزب اختلاف کو کرونا وائرس پر حکومتی حکمت عملی تحریری صورت میں تو نہ مل سکی؛ تاہم حکومتی وزرا اپوزیشن کو تجاویز پیش کرنے اور انہیں حکمت عملی کا حصہ بنانے کے اعلان ضرور کرتے رہے۔

سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے تو یہاں تک کہا کہ حکومت ایک صفحے کی حکمت عملی ہی پارلیمنٹ میں پیش کردے۔

اجلاس کا ایجنڈا اگرچہ یک نقاطی تھا، تاہم کروانا وائرس پر بات کرتے ہوئے حکومت و حزب اختلاف کے رہنما ایک دوسرے کو سیاسی تنقید کا نشانہ بھی بناتے رہے۔

وفاق اور صوبوں کے اختیارات، وسائل کی تقسیم کے طریقہ کار اور سیاسی رہنماؤں کے احتساب کی باتیں بھی ہوتی رہیں اور اگر کچھ نہیں ہوسکا تو وہ جو پارلیمنٹ کا کام ہے، یعنی قانون سازی اور حکومت کی فیصلہ سازی کے لئے رہنمائی فراہم کرنا۔

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ حزب اختلاف نے اجلاس کے انعقاد کے حوالے سے طے کردہ قواعد پر اتفاق کیا کہ رواں اجلاس میں نہ تو قانون سازی ہوگی نہ ہی سوال کیا جائے گا جس کے بعد اجلاس محض تقاریر تک ہی محدود رہنا تھا۔

پارلیمانی امور کے صحافی، فاروق اقدس کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ پہلے سے ہی غیر موثر تھی جسے حزب اختلاف نے قواعد طے کرکے 'ڈیبیٹنگ کلب' کا عملی نمونہ بنا دیا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہماری سیاسی قیادت نے ایک مرتبہ پھر ثابت کیا کہ وہ عوامی مفاد کے معاملات پر اتفاق رائے نہیں کر سکتی، جیسا کہ ہم نے حال ہی میں پاکستان کی فوج کے سربراہ کی مدت ملازمت کی توسیع کے موقع پر دیکھی۔

حکومتی رہنماؤں کے مطابق، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ہونے والی بحث کا مقصد کرونا وائرس کی صورتِ حال پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنا تھا۔

فاروق اقدس نے کہا کہ پارلیمنٹ کی کارکردگی ہمیشہ سے غیر متاثر کن رہی ہے۔ تاہم، ملکی تاریخ میں یہ پہلا اجلاس تھا جس میں اپوزیشن نے حکومت سے سوال کئے نہ ہی کوئی قانون سازی ہوسکی۔

خیال رہے کہ قومی اسمبلی کا 'ورچوئل اجلاس' بلانے کے لیے سابق اسپیکر قومی اسمبلی فخر امام کی سربراہی میں قائم خصوصی کمیٹی نے تین اجلاس کیے۔ تاہم، اس پر اتفاق رائے نہ ہو سکا۔

دوسری جانب، مسلم لیگ ن کے پارلیمانی سربراہ، خواجہ آصف نے اسپیکر قومی اسمبلی کو ایک خط کے ذریعے قومی اسمبلی کے آئینی دن مکمل کرنے کے لئے شیڈول فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ ملک کا بالادست ادارہ ہے۔ لہذا، قومی اسمبلی کا پارلیمانی سال کے لازمی دن پورے نہ کرنا آئین کی خلاف ورزی ہوگی۔

پارلیمنٹ کے قواعد کے مطابق، قومی اسمبلی کو اپنے پارلیمانی سال کے اختتام تک کم از کم 130 دن اجلاس منعقد کرنا ہوتا ہے۔ موجودہ اسمبلی جو اگست 2018 میں تشکیل پائی اس کے تاحال صرف 77 دن مکمل ہوسکے ہیں، جبکہ آئندہ اگست تک اسے 53 دن مزید ملنا ہے۔

اسپیکر قومی اسمبلی، اسد قیصر کرونا وائرس میں مبتلا ہونے کے باعث رواں اجلاس میں شریک نہیں ہو سکے۔