پاک امریکہ تعلقات سے متعلق مشکل فیصلے وقت کا تقاضا

وزیراعظم گیلانی کابینہ کے اجلاس کی صدارت کررہے ہیں

وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ امریکہ اور نیٹو کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ’’بہت نازک دور‘‘ سے گزر رہے ہیں اور ان حالات میں ملک کو خطے میں اپنی جغرافیائی اہمیت اور قومی مفادات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ’’مشکل فیصلے‘‘ کرنے کی ضرورت ہے۔

اسلام آباد میں وفاقی کابینہ کے بدھ کو ہونے والے اجلاس سے افتتاحی خطاب کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ حکومتِ پاکستان نے اپنے اصولی موقف پر نہ پہلے کبھی سمجھوتا کیا اور نہ آئندہ کرے گی۔ ’’لیکن ہم کوئی ایسا جذباتی فیصلہ بھی نہیں کریں گے جو تادیر ہمارے مفاد میں نہ ہو۔‘‘

وزیرِ اعظم گیلانی کا یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب یہ قیاس آرائیاں زور پکڑتی جا رہی ہیں کہ پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت نے افغانستان میں نیٹو افواج کو پاکستان کے راستے رسد کی ترسیل بحال کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور بظاہر اس سلسلے میں یقین دہانی کے بعد نیٹو کے سیکرٹری جنرل اینڈرس فو راسموسن نے ایک روز قبل صدر آصف علی زرداری کو شیکاگو کانفرنس میں شرکت کی دعوت بھی دی۔

لیکن کابینہ کے اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیرِ اطلاعات قمر زمان کائرہ نے نیٹو سپلائی لائنز سے متعلق حتمی فیصلے کے بارے میں اطلاعات کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کیا۔

’’نا سول اداروں اور نا ہی عسکری قیادت کی جانب سے کوئی یقین دہانی کرائی گئی ہے ... صدر (آصف علی زرداری) نیٹو اجلاس میں شرکت کریں گے اور اُن کی واپسی پر وہاں ہونے والے اعلانات (کی روشنی میں) پارلیمان کی قرار داد کے تحت حکومت پاکستان تمام فریقین کے ساتھ مشاورت سے فیصلے کرے گی اور جب فیصلے ہوں گے تو وہ چھپائے نہیں جائیں گے۔‘‘

ملک میں حزب مخالف اور دائیں بازو کی سیاسی و مذہبی جماعتیں حکومت پر زور دے رہی ہیں کہ وہ نیٹو رسد بحال نہ کرے لیکن حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اس بارے میں حتمی فیصلہ پارلیمان کی طرف سے وضع کردہ رہنما اصولوں کی روشنی میں کرے گی۔

گزشتہ سال نومبر میں سلالہ کی فوجی چوکیوں پر نیٹو کے فضائی حملوں میں 24 پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد سے پاک امریکہ تعلقات تناؤ کا شکار ہیں۔

پاکستان نے اس واقعے پر اپنے ردعمل میں نیٹو افواج کے لیے اپنی سرزمین سے رسد کی فراہمی معطل کردی تھی اور امریکہ سے اس حملے پر معافی کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن امریکہ نے اس واقعے پر معذرت نہ کرتے ہوئے صرف اظہار افسوس پر ہی اکتفا کیا ہے۔