پاکستان میں سالانہ لاکھوں حمل کیوں ضائع ہوتے ہیں؟

پاپولیشن کونسل سروے کے مطابق پاکستان میں ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر سال 20 سے 22 لاکھ خواتین حمل ضائع کراتی ہیں اور ان میں سے زیادہ تر مائیں غریب خاندانوں سے ہوتی ہیں۔ (فائل فوٹو)

انعم کی موت کچھ ایسی پیچیدگیوں کے سبب ہوئی جن کے بارے میں معالجین کو خدشہ تھا کہ انھوں نے غیر تربیت یافتہ دائی کی مدد سے حمل ضائع کرایا تھا۔ لیکن انعم نے اپنے سسرال کے سامنے آخری لمحے تک اس بات کو قبول نہیں کیا۔

سسرال کے نامناسب رویے اور اولاد میں وقفہ نہ ہونے کے سبب صحت کی خرابی کی فکر انعم کو ایک ایسی جگہ لے گئی جہاں وہ روز روز کی تکلیف سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آزاد ہوگئی۔

انعم کی ایک دوست اس سارے معاملات سے آگاہ تھیں۔ لیکن وہ چاہتے ہوئے بھی اس کی مدد نہ کر سکیں۔

انعم واحد پاکستانی خاتون نہیں جو حمل میں پیچیدگیوں کے سبب موت کے منہ میں چلی گئیں۔ پاپولیشن کونسل سروے کے مطابق، پاکستان میں ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر سال 20 سے 22 لاکھ خواتین حمل ضائع کراتی ہیں اور ان میں سے زیادہ تر مائیں غریب خاندانوں سے ہوتی ہیں۔

حمل ضائع کرانے کے اس پیچیدہ اور عموماً غیر محفوظ عمل کے دوران کئی خواتین اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔

پاکستان کا قانون عورت کی زندگی بچانے کے لیے 120 دن تک کا حمل ضائع کرانے کی اجازت دیتا ہے۔ لیکن، بد قسمتی سے کئی خواتین قانون میں دی گئی اس گنجائش کو فیملی پلاننگ کے طور پر استعمال میں لا رہی ہیں۔

خواتین حمل ضائع کیوں کراتی ہیں؟

ماہرِ نسواں ڈاکٹر عذرا احسن کے مطابق خواتین ابارشن یا اسقاطِ حمل (حمل ضائع کرانے کا عمل) کو فیملی پلاننگ کے طور پر استعمال کرتی ہیں اور اسے قدرے آسان سمجھتی ہیں۔ دواؤں اور بروقت انجیکشن لگوانے کو خواتین اذیت قرار دیتی ہیں اور وہ حمل ٹھہرنے کی صورت میں اسے ضائع کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ لیکن، ان کے بقول، اس کے سبب ان کی جان کو سنگین خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔

ماہر نسواں ڈاکٹر عذرا احسن

ڈاکٹر عذرا کے بقول، اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کے معاشرے میں شادی شدہ جوڑے فیملی پلاننگ کے مروجہ طریقوں پر عمل نہیں کرتے کیوں کہ ہمارے یہاں آگہی کی کمی ہے۔ ان کے بقول، فیملی پلاننگ نہ کرنے کی دوسری بڑی وجہ وہ غلط فہمیاں ہیں جو ان طریقوں کے بارے میں پائی جاتی ہیں۔

ڈاکٹر عذرا کا کہنا ہے کہ کچھ لوگ مذہبی نکتہ نظر سے بھی فیملی پلاننگ کو ٹھیک نہیں سمجھتے کہ یہ تو گناہ ہے۔

پاکستان میں فیملی پلاننگ کیوں کامیاب نہیں؟

ڈاکٹر عذرا کہتی ہیں کہ حکومت اس معاملے کی اونرشپ نہیں لیتی اور صحت کے ضامن ادارے اِسے اتنی اہمیت نہیں دیتے یا اسے اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتے۔

ان کے بقول عورتیں چاہتی ہیں کہ بچوں کی پیدائش میں وقفہ ہو۔ لیکن نظام اتنا بگڑا ہوا ہے کہ وہ چاہ کر بھی اس سہولت کو حاصل نہیں کر پاتیں۔ پاکستان میں زیادہ تر حمل حادثاتی ہوتے ہیں جن کی کوئی باقاعدہ پلاننگ نہیں کی جاتی اور حال یہ ہے کہ پاپولیشن ویلفیئر ڈپارٹمنٹ صرف دو بجے تک کام کرتا ہے اور بچے 24 گھنٹے پیدا ہوتے رہتے ہیں۔

ڈاکٹر عذرا کا کہنا ہے کہ پہلے 100 میں سے 35 جوڑے فیملی پلاننگ کے طریقے استعمال کر رہے تھے جن کی شرح میں پچھلے پانچ برسوں کے دوران ایک فی صد کمی ہوئی ہے۔ ہم نے دنیا سے یہ وعدہ کیا تھا کہ 2020 میں ہم اسے 50 فی صد تک لے کر جائیں گے لیکن وہ 50 تک جانے کے بجائے اور کم ہوگیا ہے جو یہ بتاتا ہے کہ فیملی پلاننگ کے طریقہ کار کے بجائے اسقاطِ حمل زیادہ رواج پا رہا ہے۔

فیملی پلاننگ سے متعلق غلط فہمیاں

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ابارشن سے ایک عورت کی جان جاسکتی ہے جب کہ فیملی پلاننگ کے کسی بھی طریقے سے اس کی جان کو خطرہ نہیں۔

ماہر امراضِ نسواں ڈاکٹر سعدیہ احسن پال کا کہنا ہے کہ ہمارے یہاں خواتین میں مختلف غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر یہ کہ ہم گولیاں کھائیں گے تو موٹے ہوجائیں گے، ہارمونز سے بانجھ پن ہوجائے گا، چھلہ (آئی یو سی ڈی) تو کہیں بھی گھوم پھر کر چلا جاتا ہے۔ وہ دل یا دماغ میں بھی چلا جاتا ہے۔ یہ سب باتیں مفروضے ہیں۔

ڈاکٹر سعدیہ کے مطابق، 'آئی یو سی ڈی' جدید ٹیکنالوجی سے بنائے جاتے ہیں اور ان کے فوائد زیادہ اور سائیڈ ایفیکٹس بہت کم ہیں۔

اسقاطِ حمل کے ممکنہ نقصانات کیا ہو سکتے ہیں؟

ڈاکٹر عذرا کے مطابق، پاکستان میں ایسی بہت سی دائیاں یا معالجین ہیں جو چھپ کر اسقاطِ حمل انجام دے رہے ہیں۔ ان کا کام صرف پیسہ بنانا ہے۔ یہ غیر تربیت یافتہ ہیں اور انھیں جب اپنا کام ٹھیک سے کرنا نہیں آتا تو یہ عورتوں کی زندگیوں سے کھیل جاتے ہیں۔

ڈاکٹر سعدیہ احسن پال

ڈاکٹر سعدیہ کے بقول، ابارشن کے دو طرح کے نقصانات ہو سکتے ہیں۔ ایک وہ جو فوری طور پر سامنے آجاتے ہیں اور دوسرا وہ جو کچھ عرصے بعد نظر آنا شروع ہوتے ہیں۔ خاص کر جب سرجری کی جاتی ہے تو مختلف آنتوں کو، خاص کر بڑی آنت کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور پھر اس کے سبب انفیکشن، شدید درد اور بانجھ پن بھی ہوسکتے ہیں۔

اسقاط حمل کرانے والی خواتین کون ہیں؟

ڈاکٹر عذرا کے مطابق، ایک عام تاثر ہے کہ جو ابارشن ہو رہے ہیں وہ اسکول، کالج جانے والی لڑکیوں کے ہوتے ہیں۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ نوے فی صد سے زائد خواتین وہ ہیں جن کی عمر 30 برس سے زیادہ ہے۔ ان کے چار سے پانچ بچے ہیں اور وہ اپنے شوہر کے ساتھ آ کر یہ بچے ضائع کراتی ہیں۔

ماہرِ نسواں ڈاکٹر عذرا کا کہنا ہے کہ "ہمارے پاس تو مولوی حضرات بھی آتے ہیں کہ بچہ ضائع کریں۔ آپ کیوں نہیں کریں گی۔ ابھی تو اس میں روح نہیں آئی ہے۔ ہم انھیں کہتے ہیں کہ اگر آپ کے پاس یہ جواز ہے تو اسے مسجد کے منبر پر بیٹھ کر بتائیں تاکہ بہت سی عورتوں کا بھلا ہو سکے۔"

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر ایک بات آپ کو معلوم ہے اور آپ اسے اپنے گھر والوں کے لیے استعمال کرا رہے ہیں تو اسے اور لوگوں کو بھی بتائیں کہ یہ غیر اسلامی عمل نہیں ہے۔

کیا اسقاطِ حمل کرنے والی دائیاں رجسٹرڈ ہیں؟

اپنا نام اور شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک دائی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ابارشن کرنے والی بہت سی غیر تربیت یافتہ دائیاں یہ کام چند ہزار روپے میں کر دیتی ہیں۔

پاکستانی نرسیں پمز اسپتال میں نومولود بچوں کی دیکھ بھال کرتے ہوئے (فائل)

ان کے بقول، انہیں خواتین بتاتی ہیں کہ فلاں دائی دو سے پانچ ہزار میں ابارشن کر دیتی ہے۔ ایسی دائیوں نے اپنے گھر میں ہی کلینکس بنا رکھے ہیں اور اگر کوئی کیس بگڑنے لگے تو انٹرنیٹ کی مدد سے وہ دواؤں کے نام معلوم کر لیتی ہیں یا کسی بھی میڈیکل اسٹور سے پتہ کر کے متاثرہ عورت کو تھما دیتی ہیں۔

اس قسم کی تمام دائیاں غیر رجسٹرڈ ہیں اور ان تک پہنچنے کا ذریعہ وہ خواتیں ہی ہیں جو ایک دوسرے سے سن کر ان تک متاثرہ عورت کو پہنچا دیتی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اگر کوئی تربیت یافتہ دائی یہ کام کرے گی تو اسے معلوم ہوگا کہ اسے کس حد تک کیس کو لینا ہے اور کس طرح نمٹنا ہے۔ پھر سب اسے اہم بات کہ اس کام میں حفظانِ صحت کو اصولوں (Sterilize methods) کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے۔

ان کے بقول، تربیت یافتہ دائیوں کو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی کیا حد مقرر ہے، مریضہ کو کہاں، کیا پیچیدگی ہوسکتی ہے۔ کہاں اس کا خون کا ضیاع ہوسکتا ہے اور اس موقع پر اسے اسپتال لے جانے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

خواتین کی مجبوریاں اور غیر تربیت یافتہ دائیوں کا کاروبار؟

دائیوں کے مطابق، عورتوں کو جب گھر میں سہارا نہ ملے تو انھیں مجبوراً یہ راستہ تلاش کرنا پڑتا ہے۔ شوہر فیملی پلاننگ پر راضی نہیں ہوتے اور سسرالی اس کی اجازت نہیں دیتے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بنا وقفے کے بچے پیدا کرتے کرتے عورت کی صحت ابتر ہو جاتی ہے اور وہ پھر چھپ کر حمل ضائع کرانے کے راستے تلاش کرتی ہے۔

فائل فوٹو


چوں کہ ان خواتین کی بڑی تعداد غریب گھرانوں کی ہے تو انہیں اپنی جیب کے مطابق ایسی ہی دائیاں میسر آتی ہیں جو ان کی جان اس مسئلے سے جلد چھڑا سکیں۔

اسقاطِ حمل کو کیسے روکا جا سکتا ہے؟

ماہرین کہتے ہیں کہ غیر محفوظ اسقاطِ حمل روکنے کا واحد حل یہی ہے کہ شادی شدہ جوڑوں کو فیملی پلاننگ کے طریقوں کے بارے میں مکمل آگہی دی جائے اور اس پر قائل کیا جائے کہ وہ اپنے خاندان کو اپنی مالی استطاعت کے مطابق بڑھانے پر یقین رکھیں۔

ماہرین سمجھتے ہیں کہ اگر ایسا ہونے لگے تو ان بچوں کی تعداد میں کمی لائی جا سکتی ہے جو دنیا میں آنے سے قبل ہی ضائع کر دیے جاتے ہیں یا پھر شیلٹر ہومز کے جھولوں میں ڈال دیے جاتے ہیں یا انہیں کوڑے کی نذر کر دیا جاتا ہے۔

فیملی پلاننگ کے کون سے طریقے بہتر ہیں؟

ڈاکٹر سعدیہ کے مطابق ہارمونل، انٹرا یوٹرائن ڈیوائسز اور امپلانٹس فیملی پلاننگ کے سب سے بہترین طریقے ہیں جن کی ناکامی کے امکانات ایک فی صد سے بھی کم ہیں۔

پاکستان میں صرف دو فی صد خواتین ہارمونل کا استعمال کرتی ہیں جو ترقی یافتہ ملکوں کی خواتین کے مقابلے میں بہت کم تعداد ہے۔

مانع حمل کی گولیاں دنیا میں متعارف ہوئے 60 برس سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے اور یہ آج بھی دنیا کا سب مقبول طریقہ سمجھا جاتا ہے جو عورت کے اپنے اختیار میں ہے۔ جب اسے اولاد چاہیے تو وہ دوا کھانا چھوڑ دے۔ اس مقصد کے لیے اسے ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت بھی نہیں۔

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ جو خواتین یہ طریقہ استعمال کر رہی ہیں، ان کی صحت نہ صرف اچھی ہے بلکہ ان میں دل کے امراض اور سرطان کے امکانات بھی نسبتاً کم ہوتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق، کوئی بھی عورت حمل ضائع کرانے کا راستہ شوقیہ نہیں اپناتی۔ یہ ایک اذیت ہے اور اس کے نقصانات بہرحال اسے ہی برداشت کرنا پڑتے ہیں جن کی وجہ سے بعض اوقات اس کی جان تک چلی جاتی ہے۔

ماہرین کے بقول، اگر شادی شدہ جوڑے اپنی زندگی کو شروع کرتے وقت یہ طے کرلیں کہ اُنہیں اپنا خاندان کس طرح آگے بڑھانا ہے تو اس سے نہ صرف عورت کی زندگی محفوظ رہ سکتی ہے، بلکہ وہ خاندان کی بہتر نشوونما بھی کرنے کے قابل ہو جاتی ہے۔