اِی۔کامرس کو ریگولیٹ کرنے کے لیے پالیسی منظور

فائل فوٹو

پاکستان میں بھی انٹرنیٹ کے ذریعے کاروبار کرنے کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کئی افراد انٹرنیٹ کے ذریعے مصنوعات فروخت کر رہے ہیں۔ لیکن پاکستان میں ای۔کامرس کے ذریعے کاروبار کی نگرانی کے باقاعدہ ضوابط موجود نہیں ہیں۔

حکومت نے حال ہی میں ای-کامرس کو ریگولیٹ کرنے کے لیے ایک پالیسی کی منظوری دی ہے۔

کابینہ سے منظور ہونے والی ای-کامرس پالیسی کے تحت انٹرنیٹ کے ذریعے کاروبار کے فروغ کے لیے مالی ترسیلات کا نظام یعنی ای-پیمنٹ انفراسٹرکچر متعارف کرایا جائے اور ادائیگیوں کے لیے بین الاقوامی گیٹ وے قائم کیا جائے۔

صارفین کے مطابق، پاکستان میں انٹرنیٹ سے خرید و فروخت میں سب سے زیادہ مشکل رقم کی ادائیگی ہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعے کاروبار کرنے والی کمپنیوں کے رجسٹرڈ نہ ہونے کے سبب صارفین کم اعتماد کرتے ہیں۔

وائس آف امریکہ کو دستیاب ای-کامرس پالیسی کے مسودے کے مطابق ای-کامرس کی مدد سے برآمدات کو بڑھایا جائے گا جس سے ملک میں روز گار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔

پالیسی کے مسودے میں ملکی اور غیر ملکی سطح پر رقوم کی ترسیل کے لیے موثر 'ای-بلنگ' انفرا اسٹرکچر جبکہ اسٹیٹ بینک کی نگرانی میں ادائیگیوں کے لیے بین الاقوامی گیٹ وے قائم کرنا بھی شامل ہے۔

'ای-کامرس پالیسی' کی بدھ کو وفاقی کابینہ سے منظوری کے بعد مشیر اطلاعات فردوس عاشق کا کہنا تھا کہ پالیسی پاکستان کی معیشت کو دور حاضر کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرے گی۔ کاروباری سرگرمیوں میں اضافے کا باعث بنے گی۔

خیال رہے کہ اس وقت پاکستان میں آن لائن خرید و فروخت کسی ضابطے کے تحت نہیں کی جاتی جس کے باعث دنیا کی بڑی آن لائن کمپنیاں ایمیزون، ای-بے اور علی بابا اپنی مکمل خدمات پاکستان میں فراہم نہیں کر رہیں۔

پاکستان میں انٹرنیٹ کے ذریعے کاروبار کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ 'ای گیٹ وے' اور 'ای بلنگ' کو تصور کیا جاتا ہے، یعنی پاکستان سے بیرون ملک بجھوائی جانے والی مصنوعات کی انٹرنیٹ کے ذریعے گھر بیٹھے پیسے وصول کرنے کی سہولت اب تک موجود نہیں۔

وزارت تجارت کی بنائی گئی اس پالیسی میں جو اقدامات تجویز کیے گئے ان میں مختلف شعبوں میں قانون سازی کرتے ہوئے مقامی اور عالمی تجارتی قوانین میں ہم آہنگی پیدا کرنا شامل ہے۔

پالیسی کے مطابق، آن لائن کاروبار کے لیے بھی سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) میں رجسٹریشن لازمی ہوگی۔

ای-کامرس پالیسی میں مقامی ای-کامرس وینڈرز کو عالمی سطح پر رسائی، مقابلے کے رجحان کو فروغ اور صارفین کے اعتماد پر سمجھوتہ نہ ہونے دینے کے لیے ضروری اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔

مسودے کے مطابق، ای-کامرس پالیسی کے مقاصد میں نوجوان نسل کو معاشی لحاظ سے خود مختار بنانے کے لیے ای-کامرس کاروبار کی جانب راغب کیا جائے گا اور ان کو آگاہی اور تربیت کے ساتھ وسائل بھی فراہم کیے جائیں گے۔

ملک میں کاروبار کی لاگت کو کم سے کم رکھتے ہوئے مقامی ڈیجیٹل اکانومی کو فروغ دیا جانا پالیسی کا حصہ ہے۔

انٹرنیٹ کے ذریعے کاروبار کرنے والوں کے لیے جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) سمیت ٹیکس کے طریقہ کار کو آسان بنانے اور ڈبل ٹیکس سے بچانے کے اقدامات کیے جائیں گے۔

پالیسی کے مطابق، استعمال شدہ اشیا کو ری-ایکسپورٹ کیے جانے کی اجازت بھی ہو گی۔

وزارت تجارت کی جانب سے بنائی گئی اس پالیسی پر عمل درآمد کے لیے وفاق اور صوبوں میں اسٹیرنگ کمیٹیوں کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔

پاکستان میں کتنا آن لائن کاروبار ہوتا ہے؟

پالیسی مسودے کے مطابق، ملک میں انٹرنیٹ کے ذریعے کاروبار کی اگرچہ ابھی اغاز ہے تاہم اس میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے جس کا اندازہ مقامی ای-کامرس پلیٹ فارمز، آن لائن وینڈرز، مختلف بینکوں اور موبائل کمپنیوں کی جانب سے آن لائن پیمنٹ کے رجحان سے لگایا جا سکتا ہے۔

اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق، گزشتہ سال ای-کامرس کے ترسیلات کا حجم 99 ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے جو کہ 2017 میں 51 ارب روپے تھا۔

اسٹیٹ بینک کے مطابق ای-کامرس کی مارکیٹ میں سالانہ 90 فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔

خیال رہے کہ اس میں پاکستان کی سب سے بڑی آن لائن ویب سائٹس دراز، اوبر، اور کریم وغیرہ شامل نہیں ہیں کیونکہ ان کی ادائیگیوں کے گیٹ وے مقامی نہیں ہیں۔

آئی ٹی سے متعلق برآمدات چھ ارب ڈالر ہونے کا امکان

ڈیجیٹل حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’بائٹس فار آل‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی آئی ٹی سے منسلک برآمدات کا حجم ایک سال میں ایک ارب 70 کروڑ ڈالر بڑھا ہے جو اگلے سال تک چھ ارب امریکی ڈالرز تک ہونے کی اُمید ہے۔ جب کہ 2025 تک پاکستان کی ڈیجیٹل فنانشنل سروسز میں 36 ارب ڈالرز تک جانے کی استعداد ہے۔

تاہم، انٹرنیٹ کے ذریعے پاکستان میں ہونے والا کاروبار اب بھی دکانوں پر ہونے والی خرید و فروخت کے مقابلے میں نصف شمار کیا جاتا ہے۔

پاکستان کی نسبت خطے کے دیگر ممالک میں دکانوں کی نسبت آن لائن خرید و فروخت کی شرح زیادہ ہے جو کہ بھارت میں دو فیصد اور چین میں 23 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔

'پالیسی نہ ہونے سے دشواریاں تھیں'

ماہر معیشت خرم شہزاد کہتے ہیں کہ آن لائن کاروبار کے لیے کسی پالیسی کے نہ ہونے سے اس شعبے سے وابستہ افراد دشواریوں اور الجھنوں کا شکار تھے جو کہ اب کسی حد تک دور ہو سکیں گی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان انٹرنیٹ کے ذریعے کاروبار کے لیے ایک بڑی منڈی بھی ہے اور ہمارے نوجوان جو کہ ٹیکنالوجی سے آگاہ ہیں، ان کے لیے معاشی طور پر خود مختار بننے کا بہتر راستہ بھی ہے۔

خرم شہزاد کا ماننا ہے کہ ای-کامرس کے شعبے میں پیش رفت کے نتیجے میں آئندہ سال اس کاروبار میں تقریباً دُگنا اضافہ متوقع ہے اور یہ اقدام ملکی معیشت کے استحکام میں اہم ثابت ہوگا۔

کیا پاکستانی صارفین کا اعتماد بڑھے گا؟

پاکستان میں 16 کروڑ سے زائد موبائل فون صارفین ہیں جن میں سے اس وقت سات کروڑ 20 لاکھ انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔ ان انٹرنیٹ صارفین کی انتہائی قلیل تعداد ہی آن لائن خریداری کرتی ہے، جس کی وجہ سامان بیچنے والوں کی طرف سے دھوکہ دہی اور رقوم کی منتقلی کا جامع نظام نہ ہونا ہے۔

ای-کامرس پالیسی کے مطابق، دھوکہ دہی کی روک تھام کے لیے نیا میکنزم بنایا جائے گا جو خریدار اور فروخت کنندہ کو تحفظ فراہم کرے گا اور نقصانات کی صورت میں ازالے کا طریقہ کار وضع ہو گا۔

اس ضمن میں ای-کامرس کے شعبے میں احتساب اور شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے کمپنیز ایکٹ 2017 اور دیگر متعلقہ قواعد میں ضروری ترامیم لائی جائیں گی۔

'یہ کاروبار ہے، صرف شوق نہیں'

زراعت سے متعلق آن لائن کاروبار کرنے والی عائشہ احمد کہتی ہیں کہ لوگوں کو خاص طور پر زراعت سے وابستہ افراد کو انٹرنیٹ کے ذریعے اشیا کی خرید و فروخت پر اعتماد نہیں ہے۔

ان کے بقول، ای-کامرس پالیسی کے نیتجے میں لوگوں کا اعتماد بڑھے گا۔

عائشہ احمد کہتی ہیں کہ پالیسی کا اجرا حکومت کا آن لائن کاروبار کرنے والوں کو تسلیم کرنا ہے جس سے لوگوں میں احساس بڑھے گا کہ یہ کاروبار ہے صرف شوق نہیں۔