پاکستان ميں رواں برس ڈينگی سے 46 ہزار افراد متاثر

فائل فوٹو

پاکستان ميں رواں برس ڈينگی سے 70 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ مجموعی طور پر 46 ہزار افراد متاثر ہوئے ہيں۔

ڈینگی بخار ایک خاص قسم کے مادہ مچھر کے کاٹنے سے ہوتا ہے۔ یہ مچھر عام طور پر صاف اور کھڑے پانی میں پایا جاتا ہے۔

پاکستان میں رواں برس ڈینگی سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد پچھلے کئی برس کی نسبت بہت زيادہ ہے۔

ياد رہے کہ 2011 ميں ملک بھر ميں کُل 27 ہزار ڈينگی کيسز سامنے آئے تھے۔

اسلام آباد ميں پاکستان کے قومی ادارہ صحت ميں وبائی امراض کے ماہر اور ڈينگی سيل کے سربراہ ڈاکٹر رانا محمد صفدر کے مطابق ڈينگی کی صورت حال نہ صرف پاکستان بلکہ دنيا کے مختلف ممالک ميں وبائی شکل اختيار کر چکی ہے۔

ان کے مطابق ڈينگی کے پھيلاؤ کی ايک بڑی وجہ موسمياتی تبديلی، درجہ حرارت کا بڑھنا اور مسلسل بارش ہونا ہے۔

ڈاکٹر صفدر کے مطابق بنگلہ ديش، فلپائن، ويت نام، سری لنکا اور نيپال ميں بہت بڑی تعداد میں لوگ ڈینگی کا شکار ہو رہے ہیں۔

وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر صفدر نے بتايا کہ عالمی ادارہ صحت (ڈبليو ايچ او) نے 2019 ميں ڈينگی کو دنيا ميں آنے والے 10 بڑے خطرات کی فہرست ميں شامل کيا ہے۔

دیگر خطوں کا ذکر کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ ڈينگی دنيا بھر کے 125 ممالک ميں موجود ہے۔ حاليہ دور ميں امريکہ ميں کيلی فورنيا اور نيو يارک ميں بھی ڈينگی کيسز سامنے آئے ہيں۔

پاکستان کے حوالے سے ڈاکٹر صفدر نے بتایا ک یہ مرض پہلی بار 1994 ميں کراچی میں سامنے آيا۔ پاکستان ميں پہلی بڑی آوٹ بريک کراچی ميں 2005 ميں ہوئی۔ اس کے بعد 2010 ميں لاہور جبکہ 2015 ميں پنجاب اور خيبر پختونخوا کے علاقوں ميں اس مرض نے وبائی شکل اختيار کی۔

قومی ادارہ صحت کی تحقيق کے مطابق پاکستان ميں ڈينگی مچھر پہلی بار انڈونیشیا سے منگوائے گئے ٹائروں کی کھیپ کے ذریعے آئے۔ ٹائروں کی یہ کھیپ سمندری راستے سے کراچی پہنچی تھی۔

خيبر پختونخوا ميں محکمہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک ڈينگی کے باعث 6751 افراد متاثر ہوئے ہيں۔ جن ميں سے 2575 افراد کا تعلق پشاور سے ہے۔

باچا خان ميڈيکل کالج ميں بطور اسسٹنٹ پروفيسر تعینات ڈاکٹر افتخار الدين نے وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس سال پوری دنيا ميں ڈینگی کے 39 کروڑ کيسز رونما ہوئے ہيں۔ ڈينگی سے سب سے زیادہ 20 لاکھ افراد برازيل ميں متاثر ہوئے۔

ڈاکٹر افتخار الدين ڈينگی سے بچاؤ کے سلسلے ميں صوبائی حکومت کے ساتھ 2013 اور 2017 ميں ٹيکنيکل ايڈوائزر کے طور پر خدمات دے چکے ہيں۔

ان کے مطابق اس مسئلے کا کوئی مکمل حل نہیں ہے۔ کوشش کرکے اسے کم تو کيا جا سکتا ہے مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔

ڈاکٹر افتخار الدين کہتے ہیں کہ بد قسمتی سے پاکستان ميں اس مرض کے حوالے سے بہت شور ہو رہا ہے ورنہ يہ اتنا خطرناک نہیں ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 90 فی صد کيسز ميں تو اسپتال جانے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ ایسے مریض جن کو سر درد، الٹی، چکر آنا یا بخار ہوتا ہے، کی تعداد نو فی صد تک ہوتی ہے۔ ان کو بھی اسپتال آنے کی ضرورت نہیں۔ ان کو زيادہ سے زيادہ پانی پينا چاہیے يا پھر پيرا سيٹامول کا استعمال کرنا چاہیے۔

ڈاکٹر افتخار الدین کے مطابق اسکرينگ سے جب نتيجہ مثبت آتا ہے تو مريض تذبذب کا شکار ہو جاتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ايک فی صد لوگ شديد بيماری کا شکار ہوتے ہيں جبکہ یہ ایک فی صد لوگ وہ ہوتے ہيں جو اپنا علاج تشخيص ہونے کے باوجود نہیں کراتے۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈينگی مچھر کی نشوونما کی 90 في صد جگہيں گھر کے اندر ہی ہوتی ہيں۔ يہ مچھر وہاں پايا جاتا ہے جہاں لوگ صاف پانی رکھتے ہيں۔

ڈاکٹروں کے مطابق لوگوں کو صحيح معنوں ميں پانی کو ذخيرہ کرنے کے بارے ميں آگاہی ہی نہیں ہے۔

اس مرض کے حوالے سے ڈاکٹر افتخار الدين ڈينگی مچھر کی دو جبکہ وائرس کی پانچ قسميں ہيں۔

ان اقسام کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ڈينگی مچھر دن کے وقت کاٹتا ہے اور ايک وقت ميں کم از کم 12 لوگوں کا شکار کرتا ہے۔ ايک مچھر 500 انڈے ديتا ہے اور يہی وجہ ہے کہ يہ وائرس بہت تيزی سے پھيلتا ہے۔ تاہم يہ مچھر تين ہفتے سے زيادہ زندہ نہیں رہتا۔

پاکستان ميں ڈينگی کی بيماری روايتی طور پر پہلی مرتبہ مارچ اور اپريل کے مہينوں ميں سامنے آتی ہے۔ اس کے بعد مون سون ميں جب شديد بارشيں ہوتی ہيں تو ڈينگی کی بيماری وبائی شکل اختيار کر جاتی ہے۔

ڈاکٹر صفدر کے مطابق رواں برس جب انہوں نے خطے کے ديگر ممالک ميں ڈينگی کی خوفناک صورت حال ديکھی تو قومی ادارہ صحت نے ايمرجنسی سينٹر قائم کيا اور بيماری کو کنٹرول کيا۔

Your browser doesn’t support HTML5

اسلام آباد پر ڈینگی کا حملہ اور حکومتی اقدامات

ان کا کہنا تھا کہ اگر يہ احتياطی تدابير نہ اختيار نہ کی جاتیں تو يہ وبا لاکھوں لوگوں کو متاثر کر سکتی تھی۔

ان کے مطابق اس بار وبا کی شدت پوٹھوہار کے علاقے ميں زيادہ تھی اور آدھے سے زيادہ کيسز کا تعلق راولپنڈی اور اسلام آباد سے تھا۔

اس وقت دنيا کی آدھی آبادی کو ڈينگی کے خطرے کا سامنا ہے۔ 2019 کے اعداد و شمار کے مطابق ايشيائی ممالک ميں فلپائن ميں 1407، سری لنکا ميں 100، تھائی لينڈ ميں 89 جبکہ بنگلہ ديش ميں 104 اموات ڈینگی سے واقع ہوئيں۔

برازيل ميں 702، ميکسيکو 89، کولمبيا 74 اور ہونڈراس ميں 148 لوگ ڈينگی کے مرض کے باعث ہلاک ہوئے۔

ڈاکٹر صفدر کے مطابق پاکستان کی کوشش ہے کہ ڈينگی سے منسلک دوسرے خطرات کو آئندہ آنے والے تين سے پانچ برس ميں کم کيا جائے۔