تحریک طالبان پاکستان کے تین دہشت گردوں کی اطلاع دینے پر انعام کا اعلان

فائل

امریکی محکمہٴ خارجہ نے ’روارڈز فور جسٹس پروگرام‘ کے تحت دہشت گرد تنظیم، ’تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)‘ اور اس سے وابستہ دھڑوں سے منسلک تین کلیدی سرغنوں کی اطلاع دینے پر انعام کی پیش کش کی ہے، ’’جس سے اُن کی شناخت اور مقام کا پتا لگ سکے‘‘۔

محکمہٴ خارجہ کے ترجمان نے جمعرات کے روز ایک بیان میں کہا ہے کہ محکمہ ’تحریک طالبان پاکستان‘ کے لیڈر، مولانا فضل اللہ کے بارے میں اطلاع دینے پر 50 لاکھ ڈالر (55 کروڑ روپے) جب کہ عبدالولی اور منگل باغ کی اطلاع دینے پر بالترتیب 30۔30 لاکھ ڈالر (35۔35 کروڑ روپے) کا انعام دینے کی پیش کش کی ہے۔

اعلان میں کہا گیا ہے کہ ’’مولانا فضل اللہ ’ٹی ٹی پی‘ کے لیڈر ہیں، جس دہشت گرد تنظیم نے پاکستانی اور امریکی مفادات کے خلاف متعدد دہشت گرد حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے؛ جن میں یکم مئی 2010ء کو فیصل شہزاد کی جانب سے نیو یارک سٹی کے ٹائمز اسکوائر میں دھماکہ خیز ’ڈوائس‘ کے دھماکے کی ناکام کوشش کرنا شامل ہے‘‘۔

’’اُن کی قیادت میں ’ٹی ٹی پی‘ نے 16 دسمبر 2014ء کے حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ پاکستان کے شہر پشاور کے ایک اسکول میں ہونے والے اس حملے میں مسلح لوگوں نے 148 افراد کو ہلاک کیا؛ جس میں 132 طالب علم تھے‘‘۔

’’فضل اللہ جون 2012ء میں 17 پاکستانی فوجی اہل کاروں کے سر تن سے جدا کرنے کے عمل میں ملوث تھا؛ جب کہ 9 اکتوبر، 2012ء میں اسکول کی پاکستانی بچی، ملالہ یوسفزئی پر گولیاں چلانے کا بھی ذمے دار ہے‘‘۔

’’سنہ 2015ءمحکمہٴ خارجہ نے فضل اللہ کو خصوصی عالمی دہشت گردوں کی فہرست کے زمرے میں شامل کیا تھا؛ جو اقدام انتظامی حکم نامے 13224 کے تحت اٹھایا گیا، جس کی رو سے اُن کے تمام اثاثے منجمد کردیے گئے جو امریکہ میں ہوں، یا برآمد ہو سکتے ہوں یا امریکی افراد کے زیر کنٹرول ہوں‘‘۔

عبدالولی ’جماعت الاحرار (جے یو اے)‘ کے لیڈر ہیں، جو ’تحریک طالبان پاکستان‘ سے منسلک شدت پسند دھڑا ہے۔

اعلان میں کہا گیا ہے کہ ’’ولی کی قیادت میں، ’جے یو اے‘ نے خطے میں حملے کیے جن میں شہری آبادی، مذہبی اقلیتوں، فوجی اہل کاروں اور قانون کے نفاذ سے وابستہ اہل کاروں کو ہدف بنایا گیا۔ اس کے علاوہ، مارچ 2016ء کے اوائل میں پشاور میں امریکی قونصل خانے پر کیے گئے حملے میں یہی دہشت گرد دھڑا ملوث تھا، جس میں دو پاکستانی ملازمین ہلاک ہوئے تھے‘‘۔

منگل باغ ’لشکرِ اسلام (ایل اِی آئی)‘ کا لیڈر ہے، جو ’ٹی ٹی پی‘ سے وابستہ ایک شدت پسند دھڑا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’اُن کی قیادت میں ’ایل اِی آئی‘ کے کارندوں نے نیٹو کے قافلوں پر حملے کیے ہیں۔ اُن کا گروپ منشیات کے کاروبار، اسمگلنگ، اغوا اور پاکستان اور افغانستان کے مابین ’ٹرانزٹ ٹریڈ‘ پر ’’غنڈہ‘‘ ٹیکس وصول کرتا ہے۔ ستمبر 2007ء میں حکومتِ پاکستان نے منگل باغ کی اطلاع دینے پر، جس سے اُس کی گرفتاری عمل میں لائی جا سکے، 60000 ڈالر کے انعام کی پیش کش کی تھی‘‘۔

محکمہٴ خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’اِن میں سے ہر فرد کے لیے خیال یہی ہے کہ اُس نے جرم کیا ہے، یا وہ جرم کا ارادہ رکھتا ہے؛ یا پھر دہشت گردی کی ہے جس سے امریکہ اور اُس کے شہریوں کی سلامتی کو خطرہ لاحق رہا ہے۔ پاکستانی فوج کے خلاف ہونے کے علاوہ، ’ٹی ٹی پی‘ کے اعلان کردہ مقاصد میں افغانستان سے اتحادی افواج کو باہر نکالنا شامل ہے‘‘۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’اس گروپ نے سنہ 2008ء سے القاعدہ کے ساتھ قریبی اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے؛ اور بارہا امریکہ کی سرزمین پر حملوں کی کھلے عام دھمکیاں بھی دیتا رہا ہے‘‘۔