ٹرمپ کا کرونا ویکسین کی تیاری کے وعدے سے صدارتی مہم کا آغاز

صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ پرامید ہیں کہ رواں برس کے اختتام تک کرونا وائرس کے علاج کے لیے ویکسین تیار کر لی جائے گی۔ (فائل فوٹو)

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں برس ہونے والے صدارتی انتخابات کے لیے باقاعدہ طور پر انتخابی مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ اس مہم کے آغاز پر انہوں نے عوام سے وعدہ کیا کہ رواں برس کے اختتام تک کرونا وائرس کے علاج کے لیے ویکسین تیار کر لی جائے گی۔

صدر ٹرمپ نے انتخابی مہم کا آغاز اتوار کو 'فاکس نیوز' کو دیے گئے ایک انٹرویو سے کیا۔ انٹرویو کے لیے انہوں نے لنکن میموریل کے اندرونی احاطے کا انتخاب کیا۔

صدر ٹرمپ نے عوام سے وعدہ کیا کہ رواں برس کے اختتام تک کرونا وائرس کی ویکسین تیار کر لی جائے گی۔ انہوں نے عوام پر زور دیا کہ وہ عالمی وبا سے پھیلنے والی مایوسی کو ترک کریں اور شاندار مستقبل کی طرف دیکھیں۔

دو گھنٹے طویل اس انٹرویو کے دوران صدر ٹرمپ نے زیادہ وقت کرونا وائرس اور اس سے نمٹنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات پر صرف کیا۔ انٹرویو کے دوران عام شہریوں نے بھی صدر سے بذریعہ ویڈیو لنک سوالات کیے۔

دو گھنٹے طویل اس انٹرویو کے دوران صدر ٹرمپ نے زیادہ وقت کرونا وائرس اور اس سے نمٹنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات پر صرف کیا۔

انٹرویو کے دوران ایک خاتون نے اپنے سوال میں کہا کہ وہ معاشی طور پر تباہ ہو چکی ہیں جس پر صدر ٹرمپ نے جواب دیا کہ آپ کی ملازمت واپس آ جائے گی اور آپ پہلے سے زیادہ پیسے کما سکیں گی۔

صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ "ہم ملک کو زیادہ وقت تک بند نہیں رکھ سکتے اور ملک کو تنہا بھی نہیں کر سکتے۔ امریکہ کے لیے اگلا سال شاندار ہو گا۔"

انہوں نے کہا کہ ہم بہت پرامید ہیں کہ رواں برس کے اختتام تک ویکسین تیار کر لی جائے گی، امریکی عوام موسم گرما میں ساحل پر جا سکیں گے اور ستمبر سے اسکولوں کو دوبارہ کھول دیا جائے گا۔

صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ان کے مشیروں نے اُنہیں ان پیشگوئیوں کے بارے میں بتایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ کی تاریخ میں وہ پہلے صدر ہیں جس نے اپنی مدتِ صدارت کے ابتدائی تین برسوں کے دوران سب سے زیادہ کام کیا ہے۔

صدر ٹرمپ اس بات پر بھی زور دیتے رہے کہ ان کی حکومت نے کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے شاندار کام کیا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

کرونا وائرس نے انتخابی مہم کے طور طریقے بھی بدل دیے

یاد رہے کہ امریکہ میں کرونا وائرس کے تیزی سے پھیلاؤ اور اس سے ہونے والے جانی نقصان پر صدر ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ کو تنقید کا سامنا ہے۔

صدر ٹرمپ پر الزام ہے کہ انہوں نے عالمی وبا پر قابو پانے کے لیے فوری طور پر اقدامات نہیں کیے۔ تاہم صدر ٹرمپ اس الزام کی مسلسل تردید کرتے رہے ہیں۔

صدر ٹرمپ خود کو 'حالتِ جنگ کا صدر' بھی قرار دیتے رہے ہیں۔ انہوں نے اس بات کی بھی تردید کی ہے کہ نومبر میں ہونے والا صدارتی انتخاب اُن کے لیے ریفرنڈم ہو گا۔

یاد رہے کہ رواں برس نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں ری پبلکن جماعت کی جانب سے صدر ٹرمپ دوسری مدتِ صدارت کے لیے امیدوار ہیں جن کا مقابلہ ممکنہ طور پر ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار جو بائیڈن سے ہے۔

انتخابات سے قبل صدر ٹرمپ ملک میں جاری لاک ڈاؤن کے باعث تنقید کی زد میں ہیں۔ صدر ٹرمپ کو اس تنقید کا بھی سامنا ہے کہ وہ صدارتی انتخابات سے قبل ہی اپنی کامیابی کا اعلان کر رہے ہیں۔

صدر ٹرمپ کی صدارتی انتخابات میں کامیابی کے اعلانات ایسے وقت میں سامنے آ رہے ہیں جب امریکہ میں ایک ہفتے کے دوران ہزاروں افراد کرونا وائرس سے ہلاک ہو رہے ہیں۔

رائے عامہ کے ابتدائی جائزوں میں صدر ٹرمپ پر ڈیموکریٹک امیدوار جو بائیڈن کو سبقت حاصل ہے۔

خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق حال ہی میں کیے گئے 538 پولز میں 43 فی صد عوام نے صدر ٹرمپ کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا جب کہ 50 فی صد سے زائد افراد نے صدر ٹرمپ کی کارکردگی سے ناخوش دکھائی دیے۔