امریکہ کے اعلیٰ سفارتی اور فوجی حکام نے افغان حکومت اور طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ افغانستان میں مستقل جنگ بندی اور جلد از جلد بین الافغان مذاکرت کا آغاز کریں۔
امریکہ کے اعلیٰ حکام نے یہ بات افغانستان کے یومِ آزادی پر اپنے پیغامات میں کہی ہے۔
امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے افغانستان کے یومِ آزادی پر ٹوئٹر پر ایک تہنیتی پیغام میں کہا کہ چیلنجز کے باوجود تمام افغان رہنماؤں کو اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور اپنے ملک کو مقدم رکھتے ہوئے ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر ایک سیاسی معاہدے تک پہنچنا چاہیے۔
1/4 Happy Independence Day to all Afghans. Today marks 101 years since Afghanistan re-claimed its independence. It is a day in which Afghans take pride and one that is rightly remembered and celebrated.
— U.S. Special Representative Zalmay Khalilzad (@US4AfghanPeace) August 18, 2020
زلمے خلیل زاد کے بقول افغانستان میں جنگ کے خاتمے اور مستقل جنگ بندی کا یہی ایک راستہ ہے۔
3/4 Afghan leaders from all sides will have to rise to the occasion, put their country first, learn from past mistakes and reach a political agreement. That is the road to ending the war and a comprehensive and permanent ceasefire.
— U.S. Special Representative Zalmay Khalilzad (@US4AfghanPeace) August 18, 2020
خلیل زاد کا کہا تھا کہ افغان عوام امن کے خواہاں ہیں۔ افغان قیادت کی سر پرستی میں جلد ہی مذاکرات کا آغاز ہونا چاہیے۔ یہ ایک تاریخی اور اہم اقدام ہے۔
4/4 The US joins Afghans in celebrating their independence and will stand with them in the their struggle to forge a sustainable peace. We wish Afghanistan independence and peace. #ZindabaadAfghanistan! #TalDeWeeAfghanistan! ##YashasinAfghanistan!
— U.S. Special Representative Zalmay Khalilzad (@US4AfghanPeace) August 18, 2020
امریکہ کے وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے افغانستان کے یومِ آزادی پر افغان عوام کے نام پیغام میں کہا کہ ہم افغان عوام کے عزم اور خود ارادیت کا احترام کرتے ہیں۔ جنہوں نے 40 سالہ جنگ کے خاتمے، امن و خوشحالی اور آزادی سے جینے کے لیے ایک نئے مرحلے کا آغاز کیا ہے۔
مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ امریکہ ایک ایسے سیاسی تصفیے کے لیے پر عزم ہے جس سے افغاستان میں تنازع کا خاتمہ ہو سکے اور اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ افغانستان دوبارہ امریکہ یا اس کے اتحادیوں کے لیے کبھی بھی خطرہ نہ بن سکے۔
دوسری طرف افغانستان میں تعینات 'نیٹو ریزلوٹ سپورٹ مشن' کے سربراہ جنرل اسکاٹ ملر نے ایک ٹوئٹ میں تمام فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ تشدد کم کر کے امن کی جانب بڑھیں۔
I%27d like to wish the people of Afghanistan a happy Independence Day. We stand behind your #ANDSF security forces as they secure peace in #Afghanistan. Now is the time to reduce violence and build a political path towards peace. - #NATO Resolute Support Commander Gen Scott Miller pic.twitter.com/i2FWxzbE5K
— Resolute Support (@ResoluteSupport) August 18, 2020
یاد رہے کہ امریکہ کے اعلیٰ عہدیداروں کے یہ بیانات ایک ایسے موقع پر سامنے آئے ہیں جب افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے عمل کے مکمل ہونے کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔
رواں سال فروری میں امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تحت بین الافغان مذاکرات کے آغاز سے قبل افغان حکومت نے طالبان کے پانچ ہزار قیدیوں کو رہا کرنا تھا جبکہ طالبان نے اپنی تحویل میں موجود افغان حکومت کے ایک ہزار قیدی رہا کرنا تھے۔
فریقین نے اگرچہ ایک دوسرے کے زیادہ تر قیدی رہا کر دیے لیکن ابھی افغان حکومت کی قید میں موجود طالبان کے 400 قیدیوں کی رہائی کا عمل مکمل ہونا باقی ہے۔
افغان حکومت نے صدر اشرف غنی کی منظوری کے بعد ان 400 قیدیوں میں سے 80 کو رہا کر دیا ہے۔ افغان حکومت سے بعض ممالک نے کہا ہے کہ وہ ان طالبان قیدیوں کو رہا نہ کرے جو مبینہ طور ان کے شہریوں کی ہلاکت میں ملوث رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے معاملہ تعطل کا شکار ہے۔
طالبان کا مؤقف ہے کہ بین الافغان مذاکرات سے قبل ان کے تمام قیدیوں کی رہائی ضروری ہے۔
'امریکہ کی یہ کوشش ہے کہ بین الافغان مذاکرات جلد از جلد شروع ہوں'
افغان امور کے تجزیہ کار اور صحافی سمیع یوسف زئی کا کہنا ہے کہ امریکہ کی یہ کوشش ہے کہ بین الافغان مذاکرات جلد از جلد شروع ہوں۔
بدھ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سمیع یوسف زئی کا کہنا تھا کہ امریکہ کے بعض اتحادی ممالک جیسے فرانس، ناروے اور آسٹریلیا نے کہا ہے کہ طالبان کے 6 یا 7 ایسے قیدیوں کو رہا نہ کیا جائے جو افغانستان میں تعینات ان کے فوجیوں کی ہلاکت میں مبینہ طور پر ملوث رہے ہیں۔
سمیع یوسف زئی کے بقول طالبان کا مؤقف ہے کہ بین الافغان مذاکرات سے پہلے ان کے تمام قیدیوں کی رہائی امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تحت ضروری ہے۔
سمیع اللہ یوسف زئی نے کہا کہ طالبان کا یہ کہنا ہے کہ ان کے باقی 400 قیدیوں کی رہائی کا عمل جاری رہنا چاہیے اور جب ان کے چند قیدی باقی رہ جائیں گے تو پھر وہ ان قیدیوں کے بارے میں کوئی فیصلہ کریں گے جن کی رہائی پر بعض ممالک نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
ان کے مطابق افغانستان کے یومِ آزادی پر امریکہ کے اعلیٰ حکام کے بیانات میں افغان حکومت اور طالبان پر زور دیا گیا ہے کہ وہ قیامِ امن کا تاریخی موقع ضائع نہ کریں۔ بصورت دیگر صورتِ حال پیچیدہ ہو سکتی ہے اور شاید ایسا موقع دوبارہ نہ مل سکے۔
Your browser doesn’t support HTML5
سمیع یوسف زئی کے خیال میں چند ایک طالبان قیدیوں کی رہائی سے متعلق بعض ممالک کے تحفظات سے افغان حکومت کو طالبان کے باقی قیدیوں کی رہائی میں تاخیر کا موقع مل گیا ہے۔ جس کی وجہ سے بین الافغان مذاکرات میں تاخیر ہو رہی ہے۔
'اپریل سے جون میں طالبان نے اتحادی فوج پر کوئی حملہ نہیں کیا'
دوسری طرف امریکہ کے محکمۂ دفاع کے انسپکٹر جنرل نے یکم اپریل سے 30 جون کی سہ ماہی سے متعلق تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ رواں سال فروری میں امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت طالبان نے اس عرصے کے دوران امریکہ یا اتحادی فورسز پر کوئی ایک بھی حملہ نہیں کیا۔
رپورٹ کے مطابق اس عرصے کے دوران افغان سیکیورٹی فورسز کے خلاف ہونے والے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ کے مطابق تشدد میں بظاہر کمی کی وجہ سے امریکہ اور اتحادی فورسز کی فضائی کارروائیوں میں بھی 80 فی صد کمی آئی ہے۔ دوسری طرف افغان سیکیورٹی فورسز پر طالبان کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ میں اقوامِ متحدہ اور امریکی عہدیداروں کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ طالبان شدت پسند گروہ القاعدہ کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں جب کہ القاعدہ کے ارکان کے ساتھ مل کر انہوں نے افغان سیکیورٹی فورسز پر مبینہ حملے کیے ہیں۔
امریکہ کے محکمۂ دفاع کی رپورٹ پر تاحال طالبان کا کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔
طالبان کا یہ موقف رہا ہے کہ وہ رواں سال فروری میں طے پانے والے معاہدے کی مکمل پاس داری کر رہے ہیں۔
طالبان کسی شدت پسند گروہ سے رابطے کی تردید کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ طالبان کا ایسے کسی گروہ سے کوئی تعلق نہیں ہے جو کسی دوسرے ملک کے لیے خطرہ ہو۔