تعزیراتی قوانین میں اصلاحات کا بِل امریکی سینیٹ سے منظور

امریکی کانگریس کی عمارت (فائل فوٹو)

منگل کو ہونے والی رائے شماری میں سو رکنی سینیٹ نے 'فرسٹ اسٹیپ ایکٹ' نامی بِل 12 کے مقابلے میں 87 ووٹوں سے منظور کیا۔

امریکی سینیٹ نے ملک کے موجودہ تعزیراتی قوانین میں اصلاحات کا بِل منظور کرلیا ہے جس کا مقصد معمولی جرائم پر قید کی سزاؤں میں کمی لا کر جیلوں میں موجود قیدیوں کی تعداد کم کرنا ہے۔

منگل کو ہونے والی رائے شماری میں سو رکنی سینیٹ نے 'فرسٹ اسٹیپ ایکٹ' نامی بِل 12 کے مقابلے میں 87 ووٹوں سے منظور کیا۔

اب یہ بِل ایوانِ نمائندگان کو بھیج دیا گیا ہے جو امید ہے کہ موسمِ سرما کی تعطیلات سے قبل ہی اسے منظور کرلے گا۔

مذکورہ بِل کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے علاوہ ری پبلکن اور ڈیموکریٹ دونوں جماعتوں کی حمایت حاصل تھی۔ بِل کے حامیوں کا کہنا ہے کہ امریکہ کے وفاقی تعزیراتی نظام میں موجودہ خامیوں کے اصلاح کے لیے اس بِل کی اشد ضرورت تھی۔

منگل کو سینیٹ سے بِل کی منظور کے فوری بعد اپنے ایک ٹوئٹ میں صدر ٹرمپ نے اس کا خیرمقدم کرتے ہوئے سینیٹ کو اس اقدام پر مبارک باد دی۔

بِل کے ذریعے تعزیرات کے موجودہ قوانین میں جو اصلاحات متعارف کرائی گئی ہیں ان میں سرِ فہرست پہلی بار جرم کے مرتکب افراد کو لازمی سزا سے بچانے اور ایک ہی جرم کے بار بار ارتکاب سے روکنے کے لیے اقدامات شامل ہیں۔

بِل میں معمولی مقدار میں کم نشہ آور منشیات رکھنے والوں کے لیے لازمی سزا کی حد کم کرنے کی سفارش کی گئی ہے جس سے امریکی حکام کے مطابق ہزاروں قیدیوں کو فائدہ ہوگا۔

مجوزہ قانون میں عدالتوں کے ججوں کو ان الزامات کے تحت سزا کی مدت کے تعین کا زیادہ اختیار حاصل ہوگا جن کے لیے موجودہ قوانین میں کم از کم مدت کا تعین کیا گیا ہے۔

بِل میں اچھے رویے کا مظاہرہ کرنے والے اور جیل میں ہنر سیکھنے والے قیدیوں کی سزا کی مدت میں زیادہ رعایت کی سفارش بھی کی گئی ہے۔

امریکہ میں 1980ء کی دہائی میں منشیات کے بڑھتے ہوئے استعمال کو روکنے کے لیے جو سخت سزائیں متعارف کرائی گئی تھیں، اس کے نتیجے میں امریکی جیلوں میں قیدیوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔

امریکی حکام کے مطابق 1980ء کے بعد سے امریکی جیلوں میں قیدیوں کی تعداد 700 فی صد تک بڑھ گئی ہے اور اس وقت قیدیوں کی تعداد کے اعتبار سے امریکہ دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2016ء کے اختتام پر امریکہ کی جیلوں میں 22 لاکھ قیدی موجود تھے۔ قیدیوں کی اتنی بڑی تعداد کی دیکھ بھال پر امریکی حکومت کو ہر سال خطیر رقم خرچ کرنا پڑتی ہے۔

بِل پر بحث کے دوران ڈیموکریٹ سینیٹر ڈِک ڈربن نے کہا تھا کہ دنیا کی کل آبادی میں امریکہ کا حصہ صرف پانچ فی صد ہے لیکن دنیا میں قیدیوں کی کل تعداد کا 25 فی صد امریکہ میں ہیں جو ایک خطرناک رجحان ہے۔

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ امریکی جیلوں میں قید افراد کی ایک بڑی تعداد معمولی جرائم اور منشیات رکھنے یا بیچنے کے جرم میں قید ہے اور ایسے افراد کے جیلوں میں زیادہ وقت گزارنے کے نتیجے میں ان کے جرائم پیشہ بن جانے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔